کرپٹ مگرمچھ اور کمزور ریاستی ادارے
محمد ناصراقبال خان
شرقپور شریف کے کسان راناضیاءاللہ خاں نے راوی کے پاس ایک فش فارم بنایاہوا تھا ۔اِ س کوابتدائی دوبرسوں میں وہاں سے اچھی آمدنی ہوئی لیکن تیسرے سال راوی میں درمیانے درجے کا سیلاب آگیا اورپھرسیلاب کے بعد کئی ماہ تک فش فارم سے کسان کے ہاتھ کچھ نہ لگا ،تحقیقات کے بعد معلوم ہوا سیلاب کے دوران دوعدد مگر مچھ فش فارم میں گھس آئے ہیں اسلئے اب وہاں کوئی مچھلی نہیں جو راناضیاءاللہ کے قابو آئے ۔ کسان کی درخواست پر دونوں مگر مچھ گرفتار کرکے مقامی پنچائیت میں پیش کئے گئے جہاں ان کیخلاف سماعت شروع ہوئی ۔کٹہرے میں کھڑے دونوں مگر مچھ اپنے مخصوص اندازمیں آنسوبہاتے اوراپنی بیگناہی کی دوہائیاں دیتے رہے ،انہوں نے الٹاکسان کومنتقم مزاج جبکہ اپنے خلاف پنچائیت کی کارروائی کوانتقام قراردے دیا۔اس جوڑی کاکہنا تھا ہم دونوں کیخلاف کسان کے پاس مچھلیاں ہڑپ کرنے کے شواہد ہیں اورنہ کوئی ٹھوس شہادت ہے لہٰذا ہمیں رہا کیاجائے۔ پنچائیت میں شریک کسی بزرگ نے ایک مگر مچھ سے پوچھا تم دونوں کو فش فارم میں آئے ہوئے کتنا وقت ہوگیا ہے تومگر مچھ نے بتایا سات ماہ قبل جوسیلاب آیا تھا ہم دونوں اس دوران فش فارم میں گھس گئے تھے لیکن ہم نے ایک بھی مچھلی ہڑپ نہیں کی ۔دانابزرگ نے کہااس کامطلب تم مگر مچھ ہوتے ہوئے پچھلے سات ماہ سے مچھلیاں نہیں بلکہ” سبزیاں”تناول کر رہے تھے ۔تم دونوں گوشت خور ہواورتمہاراموٹاتازہ وجود تمہارے گناہ کی دوہائی دے رہا ہے،بزرگ کی بات سنی تودونوں مگر مچھ پھرروناشروع ہوگئے اورانہوں نے انتقام انتقام کاشورمچادیا۔پنچائیت میں شریک تین میں سے دو”بابوں”نے عدم شہادت پردونوں مگر مچھ باعزت رہاکردیے جبکہ مدعی کسان نے اپنے ماتھے پر منتقم مزاجی کا داغ سجائے گھر کی راہ لی ۔دونوں مگر مچھ باعزت رہائی کے بعد کسی دوسرے زمیندار کے فش فارم میں گھس گئے جس پران کی پہلے سے نظر تھی ۔جومعاشرہ کسی بااثر چور کوسزانہیں دیتا وہ چُور چُور ہوجاتا ہے۔جو نظام طاقتور چوروں کوناشتہ میں”چُوریاں” پیش کرے وہاں” چوریاں” عام ہوجاتی ہیں۔
ہمارے محبوب ملک پاکستان کوبھی ضیائی آمریت کی شروعات سے اب تک بری طرح نوچا گیا اوراس کے قومی وسائل میں بار بار نقب لگائی گئی ۔پاکستان مقروض ہوتاگیا جبکہ اس کی معیشت دن بدن مفلوج ہوتی گئی لیکن پاکستان پرراج اورپاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کرنیوالے مٹھی بھر” مگر مچھ” امیر کبیر” لیکن عام لوگ مفلسی کے” اسیر”ہوتے چلے گئے۔
قومی چوروں کے اندرون وبیرون ملک ہوشربا اثاثوں نے ان کی ایک ایک چوری اورسینہ زوری کارازفاش کردیا ہے لیکن پھر بھی وہ آزاداوراس معاشرے کے بااثر افراد ہیں جو نظام کے ناکام ہونے کازندہ ثبوت ہے۔
اِن چوروں کی ”زر”اور”زور” سے لتھڑی” سیاست” نے” ریاست” کوبے بس کردیا ۔پاکستان میں چورطبقہ تھانیداراورمحتسب سے زیادہ طاقتور ہے اوران چوروں کیلئے ریاستی نظام کوموم کی ناک بناتے ہوئے اپنے مذموم عزائم کوپایہ تکمیل تک پہچانا جبکہ محتسب کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کوئی دشوار نہیں ۔
ہمارے ہاں رائج بانجھ جمہوریت کے طفیل معمولی مچھلیاں” زندانوں” میں جبکہ بیشتر بڑے مگر مچھ” ایوانوں” میں ہیں،پروڈکشن آرڈر اوراس قسم کے دوسرے قوانین کے ہوتے ہوئے منتخب ایوانوں کوچوروں سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔
چوروں اوران کے تنخواہ دارقلم فروشوں کا محتسب کومنتقم مزاج کہنا اوراحتساب کاباب بندکرنے کیلئے انتہائی منظم انداز میں شورمچاناشرمناک پروپیگنڈااور ایک خطرناک ایجنڈا ہے ۔ نیب زدگان نے نیب کومرعوب کرنے کیلئے آسمان سرپراٹھایا ہوا ہے،امید ہے ان کیلئے آئندہ نیب ایک آسیب بنارہے گا۔
اگرنیب کمزورہوا تویقینا چورمزیدطاقتورہوں گے اورملک میں” کرپشن ”کیخلاف نیب کا”آپریشن ”بری طرح متاثر ہوگا۔
کوئی ریاست شفاف اوربے رحم احتساب کے بغیر معاشی طاقت نہیں بن سکتی ۔پاکستان کے قومی وسائل کس کس نے ہڑپ کئے یہ جاننا زیادہ دشوار نہیں ،ایٹمی پاکستان کے محرک اوراسلامی کانفرنس کے میزبان ذوالفقارعلی بھٹو کوتخت سے تختہ دارتک پہنچانے والے بدترین آمراورمنافق ضیاءالحق سمیت اب تک جس کسی کے پاس اقتدارواختیار تھا اس سے ڈنڈے کے ساتھ قومی وسائل کی چوری کاحساب لیاجائے ،جوخودزندہ نہیں ان کے بچوں سے اُگلواناہوگا۔اگران چندحکمران خاندانوں کے اثاثوں کامہارت سے پوسٹ مارٹم کیاجائے توقومی معیشت کے قتل میں شریک ہرقومی مجرم کواس کی گردن سے دبوچا اوراس سے قوم کاپیسہ برآمدکیا جاسکتا ہے ۔
قومی چوریادرکھیں موت برحق ہے ،قبور میں” مال” ساتھ نہیں جاتا وہاں صرف” اعمال” کام آتے ہیں۔ کچھ لوگ آج دولت اورشہرت کے کوہ ہمالیہ پر کھڑے ہیں مگران کاتارتاردامن عفت ،رفعت اورعزت سے خالی ہے ۔پاکستان اورپاکستانیوں کاپیسہ چوری کرکے اس” مال” سے لندن اورپیرس کے کسی بڑے” مال” میں شاپنگ کرنیوالے وہاں کسی دوکان سے اپنے اوراپنے بیوی بچوں کیلئے عزت نہیں خرید سکتے۔
ہمارے ہاں لوگ جس انداز سے ریاستی اداروں اورسرکاری اہلکاروں کو مخاطب کرتے بلکہ للکارتے ، لتاڑتے اورگھسیٹتے ہیں دنیا کے کسی مہذب ملک میں اس طرح نہیںہوتا۔میں ایک برس برطانیہ میں رہا ہوں ،میں نے وہاں کسی کو ریاستی اداروں کی تضحیک کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ وہاں کوئی ”منصف ”نہیں بلکہ اس کافیصلہ بولتا ہے،وہاں” مصنف”بھی اپنی جانداراورشاندار تحریر وں کے بل پر سچائی تک رسائی یقینی بناتے ہیں ۔
وہاں ریاستی ادارے باہمی احترام یقینی بناتے ہوئے ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر ریاست کی تعمیروترقی اوراپنے ہم وطنوں کی فلاح واصلاح کیلئے اپنااپنا آئینی کرداراداکررہے ہیں۔وہاں بھی کرپشن ہے لیکن کسی ادارے کوچوریانااہل نہیں کہا جاتا کیونکہ ادارو ں میں چورہوتے ہیں ادارے چورنہیں ہوتے ۔ہمارے ملک میں ریاستی اداروں کونااہل اورچورکہنا فیشن بن گیا ہے ۔
پاکستان میں جس نے زندگی بھر ڈاکے مارے ہوں وہ بھی پولیس پر انگلی اٹھاتا ہے۔ بھارت سے جاہل، متعصب اورانتہاپسند دشمن کے ہوتے ہوئے ہم پاک فوج کوکمزورکرنے کاتصور بھی نہیں کرسکتے،پاک فوج پرتنقیدکرنیوالے مٹھی بھر فتنہ پرورلوگ عہدحاضر کے ابوجہل ہیں ۔جہاں مافیازکاراج اورظلم واستحصال کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی میں ملاوٹ کارواج ہو ،جہاں قاتل اورجنسی درندے دندناتے ہوں ،جہاں بدبخت پتنگ بازمعصوم بچوں سمیت بیگناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوںوہ معاشرہ پولیس کے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتا ۔جس ملک کے بڑے بدعنوانوں کامنتخب ایوانوں میں آنا جانا ہواورقومی وسائل ان کے رحم وکرم پر ہوںوہاں بے رحم احتساب کیلئے نیب کومزید بااختیار اوراس کامورال بلندکرنا از بس ضروری ہے۔
جس طرح کسی بھی صحتمند، متمدن اورمہذب معاشرے کی تعمیر میں مختلف پیشہ ور لوگ اپنااپناکلیدی کرداراداکرتے ہیںاوران میں سے ہرایک کااپنامنفردمقام ہے۔یہ ایک دوسرے کاراستہ روکنے کی بجائے راہ ہموارکرتے ہیں۔اِن پیشہ ور افرادمیںسے کوئی خودکو”برہمن” اوردوسروں کو”شودریااچھوت” نہیں سمجھتا۔ مختلف برادریاں فرق یعنی شناخت کیلئے ہیں تفریق کیلئے ہرگز نہیں،ہر”برادری” کے پیچھے قدرت کی ”بردباری” جھلکتی ہے ۔اِس طرح ایک خودمختاراورخوددار ریاست کے نظام اوراستحکام کیلئے مختلف شعبہ جات کے درمیان تال میل ناگزیر ہوتا ہے۔
ریاست کی رِٹ برقراررکھنے کیلئے اداروں کاایک دوسرے کی تعظیم یقینی بنانااور ان کا ریاست کودرپیش چیلنجز سمیت اندورنی وبیرونی خطرات کامقابلہ کرنے کیلئے متفق ،متحد اورمستعدہونا ضروری ہے۔ سینیٹ ،قومی وصوبائی اسمبلیاں،عدلیہ ،نیب ،افواج پاکستان ،رینجرز،ایف سی ،پولیس،جیل پولیس ،ایف آئی اے،سول ایوی ایشن،پی آئی اے ،ریلوے،واپڈا،زراعت ،صنعت وتجارت اورصحافت سمیت مختلف ریاستی ادارے مجموعی طورپراپنے اپنے کام کے ساتھ انصاف کررہے ہیں۔خدانخواستہ اگران میں سے کوئی ایک بھی ادارہ کمزورہوگاتو اس کاریاست کی سا لمیت پرمنفی اثر پڑے گا۔خداراریاستی ادارے ایک دوسرے کامیڈیاٹرائل نہ کریں ورنہ ان میں اور سیاسی اداروں میں کیا فرق رہ جائے گا۔جس طرح کچھ مسلمان ناقص ہوسکتے ہیں لیکن الحمدللہ دین فطرت اسلام کامل ہے
۔اس طرح ریاستی اداروںمیں خامیاں اورکمزوریاں ہوسکتی ہیں اور معاشرے کی ”فلاح” کیلئے ان اداروں میں” اِصلاح “کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگران میں سے کوئی ادارہ ریاست کیلئے بوجھ نہیںہے ۔نیب سمیت ایساکوئی ریاستی ادارہ نہیں جس میں نااہل لوگ نہ ہوں مگر کوئی ادارہ نااہل نہیں ہوسکتا۔جس طرح پاک فوج نے پچھلے دنوں اپنے خودکارنظامِ احتساب کے تحت چندفوجی آفیسرز کوسخت سزادی اس طرح پولیس اورجیل پولیس سمیت دوسرے اداروں میں بھی احتساب کانظام رائج ہے۔پولیس اورجیل پولیس کے اندر بھی آفیسرز اوراہلکاروں کو کرپشن اورقانون شکنی کرنے پرسخت سزاﺅں کا سامناکرناپڑتاہے۔
پاکستان کی معاشی بدحالی کے ڈانڈے اقتدار کے ایوانوں اورسرکاری اداروں میں ہونیوالی ہوشربا کرپشن سے جاملتے ہیں،خودمختاراوربااختیارنیب کے سواکوئی کرپشن کا سیلاب روکنے کیلئے بند نہیں باندھ سکتا ۔نیب مجموعی طورپر ایک فعال ادارہ ہے ،اس ریاستی ادارے کو نااہل کہنا درست نہیں۔پولیس کے فرض شناس اورسرفروش آفیسرسمیت جانبازاہلکارفرض منصبی کی بجاآوری کے دوران شہریوں کی طرف آنےوالی” گولیاں” اپنے کشادہ سینوں سے روکتے اورجام شہادت نوش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود شہریو ں کی طرف سے انہیں ”گالیاں” سننا پڑتی ہیں۔
پنجاب پولیس کے 1500سے زائد شہداءسمیت چاروں صوبوں سمیت آزادکشمیر اورگلگت بلتستان کے ہزاروں آفیسرزواہلکاروں نے شہروں اورشہریوں کی حفاظت کے دوران شرپسندوںکا مقابلہ کرتے ہوئے موت کوگلے لگایا ۔شہرقائدؒ میں سٹاک ایکسچینج پرہونیوالے حالیہ حملے کے دوران وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کی شجاعت اورشہادت کوفراموش نہیں کیا جاسکتا۔
محمد ناصراقبال خان گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھ رہے ہیں