محمد ناصراقبال خان
عزت اور شہرت میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اس کے باوجود ہردورمیں مخصوص لوگ عزت کی بجائے شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں جبکہ اس دوڑمیں عزت بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ان عناصر کاکہنا ہے بدنام ہوں گے توکیا نام توہوگا۔
راقم کے نزدیک “ٹک ٹاک” کوئی صحتمند تفریح نہیں بلکہ رسوائی اورجگ ہنسائی کادوسرا نام ہے ،اس سے ملی شہرت کسی صورت عزت کامتبادل نہیں ہوسکتی۔
حکومت نے ٹک ٹاک پرپابندی کے بعد بھی یوٹرن لے لیا۔قوم کی بیٹیوں کاشناخت اورشہرت کی تلاش میں اپنی اوراپنے خاندان کی عزت داﺅپرلگاناانتہائی شرمناک اورناقابل برداشت ہے۔اگرریاست واقعی ماں ہے تواپنی بیٹیوں کوگمراہ ہونے سے بچائے۔
مجھے ان افراد پر بڑا ترس آتا ہے جوعزت اورشہرت میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ اب تو بدقماش بھی بدترین” رسوائی” اور”رہائی” کے بعد بڑی گاڑی میں بیٹھ کرکہتا ہے ”اللہ نے بہت عزت دی ہے مجھے”۔
ماضی کی سپر ہٹ بھارتی فلم “شعلے”میں گبھر سنگھ کاکردار ویرو سے زیادہ مقبول ہوایعنی گبھر سنگھ کوزیادہ شہرت ملی لیکن حقیقت میں ویرویعنی دھرمیندراس کہانی کاہیرو جبکہ گبھر سنگھ یعنی امجدخان اس “بڑی “فلم کا” بڑا” ولن تھا ۔ولن والی ذلت اورمنفی شہرت سے عزت والی گمنام موت ہزاردرجے بہتر ہے۔عزت کی طرح شہرت کامثبت ہونا از بس ضروری ہے ورنہ تو شیطان ،فرعون اورپلید یذید کی شہرت کا بھی ڈنکا بجتاہے۔
پچھلے دنوں ایک “میرا”نامی خاتون نے لاہورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خود کوبار بارہیروئن کہا ،اگروہ بیچاری سچی میں فلمی ہیروئن ہوتی تواسے اس بات کاڈھول نہ بجاناپڑتا۔بدقسمتی سے ہماری شوبزانڈسٹری والے شعبدہ بازی جبکہ شہرہ آفاق ترک پلے ارتغرل غازی پرتنقید کے سواکچھ نہیں کرسکتے ۔اب ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کی کوئی فلم یا ٹی وی پلے تودرکنار مصنوعات کی کمرشل تک نہیں دیکھ سکتے ۔یادرہے کمزوردوسروں سے حسد جبکہ طاقتوراورہنرمندمقابلہ کرتے ہیں۔پاکستان کی شوبزانڈسٹری کاجوطبقہ ارتغرل غازی میں نقص نکالنا اوراس کیخلاف زہراگلناا پناحق سمجھتا ہے وہ اس معیار کاکوئی پلے بنائے اورفیصلہ ناظرین پرچھوڑدے۔
ہمار ی قومی سیاست کے چند مخصوص کرداروں کے” مقبول” ہونے کا تاثر دیابلکہ دعویٰ کیاجاتا ہے حالانکہ گڈگورننس کیلئے مقبول نہیں ” معقول” ہونا زیادہ اہم ہے۔
حکمران جماعت پی ٹی آئی کاکہنا ہے عمران خان پاکستان میں بہت مقبول ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کی رائے میں نوازشریف زیادہ مقبول ہے ،ان دونوں پارٹیوں نے آج تک اپنے اپنے سربراہ کومعقول نہیں کہا۔نوازشریف اور عمران خان دونوں” مقبول” ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی” معقول” نہیں ہے۔
راقم کامشاہدہ ہے معاشروں اورملکوں کے مقبول کردار درحقیقت مغروراورمنتقم مزاج جبکہ معقول افراد فطری طورپرمعتدل اورمستقل مزاج ہوتے ہیں۔تبدیلی سرکار کیخلاف متحدہ اپوزیشن کے عوامی اجتماعات بے سود ہیں کیونکہ کپتان کو بے نقاب کرنے کیلئے اس کی اپنی زبان کافی ہے۔تبدیلی سرکار ناکام اوربدنام ہونے کے باوجود اسی طرح گلگت بلتستان انتخابات جیت گئی جس طرح ماضی میں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کوکامیابی ملی تھی ۔بلے کے پلے کچھ نہیں لیکن اس کے باوجودامید اورشنید ہے کپتان کی جماعت سینیٹ الیکشن بھی جیت جائے گی،راقم کے نزدیک وہ کامیاب ہے جودھونس دھاندلی سے انتخابات نہیں بلکہ اپنے فلاحی اقدامات سے ہم وطنوں کے دل جیت لے ۔
کپتان کے انتظامی کی بجائے انتقامی فیصلے اس کے اورعوام کے درمیان فاصلے پیداکررہے ہیں،اس نے دوبارہ ایوان اقتدارمیں رسائی کاراستہ اپنے ہاتھوں سے بند کرلیاہے۔کپتان نے مہنگائی کیخلاف عوام کی دوہائی پرکان نہیں دھرے ۔جس کپتان کے ٹیم ممبر غلام سرور خاں ،اسدعمر،فوادچوہدری ،سردارعثمان بزدار،فیاض الحسن چوہان اور عمر شیخ ہوں گے جیت اس کامقدر نہیں بن سکتی ۔
عثمان بزدار کاکہناہے کچھ نادیدہ کردار اس کیخلاف سازش کرر ہے ہیں ،میں سمجھتا ہوں بزدار کیخلاف بزدار کے سواکوئی سازش نہیں کرسکتا،اس کی بجائے تخت لاہورپر کوئی “بردبار” سیاستدان براجمان ہوتا تویقینا اسے سازشوں کاسامناکرناپڑتا۔بزدار تومسلم لیگ (ن) کوبھی بہت سُوٹ کرتا ہے۔بزدار کی بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب تقرری سے تبدیلی سرکاربانجھ ہوگئی اور پنجاب تختہ مشق بن گیا ۔ کپتان کو پنجاب کے منتظم اعلیٰ کی تبدیلی کیلئے کہاجاتا تووہ الٹا عثمان بزدار کی مدح سرائی شروع کردیتا اوراب عمران خان نے اپنے بزدارثانی عمر شیخ کی قصیدہ خوانی شروع کردی ہے۔موصوف نے چندماہ بیشترجس عمر شیخ کو محکمانہ ترقی کے اہل نہیں سمجھا تھامحض چندماہ بعد اسے میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سی سی پی اولاہورلگادیا۔
کپتان نے انعام غنی کوانعام میں جوکچھ دے دیا وہ اس کاتصور بھی نہیں کرسکتا تھااسلئے اس نے پنجاب پولیس میں بیجاسیاسی مداخلت پرسمجھوتہ کرلیا ہے،لاہورسمیت پنجاب بھرمیں ہونیوالے ہرناخوشگوارواقعہ پرسی پی اوکے شعبہ ڈی پی آر سے”آئی جی پنجاب نے نوٹس لے لیا” کی پریس ریلیز ایشوہوجاتی ہے کیونکہ اس کے سواآئی جی کے پاس کرنے کیلئے کچھ نہیں ۔جوآفیسرخودمیرٹ پرنہ آیاہووہ میرٹ کی” واٹ” لگادیتا ہے،انعام غنی اورعمر شیخ اس کی زندہ مثال ہیں۔عمر شیخ کی” زبان” سے خواتین سمیت کسی ماتحت کی عزت محفوظ نہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے نزدیک “بدزبان” ہونا خامی نہیں بلکہ” خوبی” ہے۔فیاض الحسن چوہان کوبھی اِس “وصف” کی بنیادپردوباروزرات اطلاعات کاقلمدان دیا گیاتھا۔
میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھاوزیراعظم عمران خان کی “زبان ” ان کے قابومیں نہیں،موصوف کاضرورت سے زیادہ بولنا انہیں بار بار زِچ کرواتا ہے ،وہ عجلت میں “اُلٹی “کردیتے ہیں اورپھر “صفائی” کیلئے کئی ماہ تک ان کو بار بار وضاحت کرنا پڑتی ہے۔جس ایٹمی ریاست کاوزیراعظم اپنے اتحادیوں سمیت بیسیوں وزیروں اورمشیروں کے ہوتے ہوئے اپنی امورریاست اور سیاست سے نابلد اہلیہ سے مشاورت کرے گا،سیاسی طوفان اورانتظامی بحران اس ریاست کامقدربن جاتے ہیں۔راقم نے دوبرس قبل بھی اپنے ایک کالم میں وزیراعظم کومخاطب کیا اورکہا تھا ”اپنی اہلیہ کوبے پناہ محبت اورعزت دیں لیکن انہیں امورریاست سے بہت دوررکھیں”لیکن جوعمران خان اپنے اتحادیوں چوہدری شجاعت حسین اورچوہدری پرویزالٰہی کے مفید سیاسی مشوروںپرکان نہ دھرتاہووہ مجھ سے طفل مکتب کی کوئی بات کیاسنے گا۔ چوہدری شجاعت حسین لاہور کے سرکاری ہسپتال سے شفایاب ہو گئے لیکن نوازشریف لندن میں بھی تندرست نہیں ہورہا ،لگتا ہے نوازشریف نے” علاج” کروانے نہیں “لاج” بچانے کیلئے لندن کارخ کیالیکن گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کانتیجہ بتارہا ہے نوازشریف لاج بچانے میں ناکام رہا۔اگرکپتان کولگتا ہے گلگت بلتستان میں اس نے لاج بچالی تووہ بھی غلطی پر ہے۔
اِن دنوں وزیراعظم عمران خان ایک بار پھرعثمان بزدار کی طرح اپنے معتمد متنازعہ سی سی پی اولاہور کے زوربازوسے اپنے بہنوئی کے پلاٹ کاقبضہ واگزارکروانے کی بنیادپرقومی اورسوشل میڈیامیں”اِن”ہیں۔یہ قبضہ توایک ایس ایچ اوختم کرواسکتا تھا۔سچی بتاﺅں تووزیراعظم عمران خان نے اپنے بہنوئی کے پلاٹ کا”قبضہ “چھڑانے کیلئے شہرلاہور کا”قبضہ “عمر شیخ کو دے دیاہے۔کیا عمران خان اپنے رشتہ داروں کی جائیدادوں پر سے قبضہ ختم کروانے کیلئے اقتدارمیں آئے ہیں،کشمیر پربھارت کاقبضہ کون ختم کروائے گا ۔جووزیراعظم کارشتہ داریاسیاسی طورپران کاوفادارنہیںہوگاکیااسے بھی ان تک رسائی ملے گی۔کیا تبدیلی سرکار کے دورمیں کسی عام شہری کی جائیدار پربھی کسی مافیا کاناجائزقبضہ ختم ہوگا۔جب بھی کوئی عام شہری ایک سائل کی حیثیت سے پولیس کے پاس جائے اورا پنی جائیداد پرغنڈوں کے ناجائزقبضہ کیخلاف تحریری درخواست دے تواسے دوٹوک انداز میں کہا جاتا ہے پراپرٹی پرقبضہ ختم کرواناپولیس کے اختیارمیں نہیں لہٰذاءعدالت سے رجوع کرو توپھر وزیراعظم عمران خان کے بہنوئی کے پلاٹ کاقبضہ سی سی پی اولاہور نے کس قانون اوراختیار کے تحت خالی کروایاہے ۔پچھلے دنوں منظرعام پرآنیوالی ایک سرکاری رپورٹ نے عمر شیخ کی ترقی سے محرومی کابھانڈا پھوڑدیا تھا لیکن اس کے باوجودآج شہر لاہور سمیت لاہورپولیس کاہرآفیسر اورجوان عمر شیخ کے رحم وکرم پر ہے۔عمر شیخ کی بحیثیت” سی سی پی او”لاہور تقرری کے دن سے لاہورپولیس” آئی سی یو” میںہے ،لاہورپولیس کامورال مسلسل زوال پذیر ہے اوراہلکارنفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔ایس ایس پی آپریشنزلاہورکاآفس مسلسل کئی روزتک خالی رہا کیونکہ ایساکوئی پولیس آفیسر جواپنے ضمیر اورعزت نفس کوعزیز رکھتا ہووہ لاہورمیں تقرری نہیں چاہتا ۔عمر شیخ ایک شہنشاہ کی طرح محض پسندناپسند کے تحت جس آفیسر اوراہلکار کوچاہے معطل اورگرفتارکرسکتا ہے،وہ اپنے آپ کوکسی محکمانہ “ایس اوپی” کاپابنداورکسی کوجوابدہ نہیں سمجھتا ۔پولیس کے انتھک آفیسرز اوراہلکارجس تناﺅوالے ماحول میں اورمحدودوسائل کے ساتھ کام رہے ہیں وہ غنیمت ہے ۔
عمر شیخ کے پیشروکسی سی سی پی اولاہور نے اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کے ساتھ ایساہتک آمیز رویہ نہیں اپنایالہٰذا ءمعاشرے کا کوئی بھی باشعور فرد عمر شیخ کوحق پرنہیں سمجھتا ۔دنیا کاایساکوئی معاشرہ نہیں جہاں کسی آفیسرنے اپنے ماتحت اہلکاروں کو گالیاں دے کر ان سے عزت یااطاعت کروائی اور پیشہ ورانہ کام لیاہو ۔ریاست پولیس کوجووسائل مہیاکرتی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔پولیس اہلکاروں کی انفرادی واجتماعی ” اِصلاح” کیلئے ان کی” فلاح” بھی از بس ضروری ہے، ان کے رویوں میں نمایاں بہتری بیجا مقدمات نہیں بلکہ دوررس اصلاحات اور اقدامات سے آئے گی۔یادرکھیںسی سی پی اولاہورکی تبدیلی تک تھانہ کلچر نہیں بدلے گا۔
محمد ناصراقبال خان سینئر کالم نگار ہیں اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے مختلف اخبارات میں کالم لکھ رہے ہیں.