محمد ناصراقبال خان
پاکستان کے بعدآزاد ہونے والے متعدد ممالک آج ہم سے زیادہ متمدن اورمتمول کیوں ہیں؟
کیونکہ قائدؒ کی وفات کے بعد چند خاندان مافیاز کی صورت میں سیاسی ومعاشی طورپر طاقتور ہوتے چلے گئے اور ان کے بوجھ سے ہماری ریاست کمزورہوتی چلی گئی لہٰذاء ان مافیازکا زورتوڑنے اورچوروں کا احتساب ہونے تک ریاست کی مضبوطی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔
عوام کئی دہائیوں سے نیب کی آنیاں جانیاں ضروردیکھتے آرہے ہیں لیکن انہوں نے کسی دورمیں بھی چوروں ک ابے رحم احتساب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جہاں چوری سمیت مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کوبروقت اورسخت سزانہیں دی جاتی وہاں نظام عدل پر عوام کااعتماد برقرارنہیں رہتا۔ ہم آج جومہذب ممالک دیکھتے ہیں وہاں قانون کا راج اورعدل وانصاف کارواج ہے۔وہاں ریاستی ادارے ایک دوسرے کیخلاف مہم جوئی اورایک دوسرے کامیڈیا ٹرائل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہاں کوئی سیاستدان اقتدارمیں ہویانہ ہولیکن وہ اپنی ریاست کے ساتھ منفی سیاست اور قومی مفادات پرمسلسل حملے نہیں کرتا جبکہ ہمارے ہاں جو سیاستدان مسلسل کئی دہائیوں تک اقتدارکے مزے اڑانے کے بعد جب کبھی کسی سرکاری مسند یا منصب پربراجمان نہیں ہو تے اورانہیں انتخابات میں شکست کے بعد اپوزیشن بنچوں پربیٹھنا پڑجائے تووہ ریاست اور ریاستی اداروں کواپنے انتقام کانشانہ بنانے لگتے ہیں، ان میں سے کچھ کوتاہ اندیش اورضمیرفروش توقومی رازفاش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے،تاہم کوئی محب وطن اورباشعور فرد یا طبقہ اس طرح کے افراد کی باتوں پرکان نہیں دھرتا اوران کے کسی نام نہاداحتجاج میں بھی شریک نہیں ہوتا۔ وہاں عدلیہ سے تاحیات نااہل قرارپانے کے بعد کوئی شخص ریاستی اداروں پرانگلی نہیں اٹھاتااوراپنے ہم وطنوں کواداروں سے بیزاریامتنفر نہیں کرتا ۔وہاں چند ہزارلوگ اوردوچارقلم فروش بھی کسی وطن دشمن کے ساتھ اظہارہمدردی یااظہاریکجہتی نہیں کرتے۔
جو نادان لوگ نوازشریف کی محبت میں ہزاروں شہداءکی وارث پاک فوج کیخلاف نفرت کوہوادے رہے ہیں وہ یادرکھیں ان کے باپ دادا کی طرح ان کاجینا مرنا بھی پاکستان کے ساتھ ہے۔جس نوازشریف کے اپنے دوفرزند پاکستان آنے اوراپنے خلاف مقدمات کاسامناکرنے کیلئے تیار نہیں وہ دوسروں کے بیٹوں کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے احتجاجی تحریک میں جھونک رہا ہے۔
مریم نوازنے اپنے حالیہ بیان میں تبدیلی سرکار کی حامی کچھ شخصیات کودوہری شہریت کاطعنہ دیاحالانکہ ان کے اپنے دو بھائی برطانوی شہر ی ہیں ۔جس طرح ایک عالم اورجاہل کاگناہ برابر نہیں ہوسکتا ،جس طرح ایک قانون دان اورعام شہری کی قانون شکنی میں زمین آسمان کافرق ہے اس طرح تین بار وزیراعظم منتخب ہونیوالے شخص اورایک سادہ سے سیاسی ورکر کے طرزسیاست میں فرق ناگزیر ہے۔اس پاکستان نے نوازشریف اوران کے خاندان کوکیا کچھ نہیں دیا اورموصوف آج پاکستان کوکیا دے رہے ہیں،یہ ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔ نوازشریف تین باروزیراعظم منتخب ہوئے اورتینوں بار پاک فوج کے تین مختلف سربراہان سے ناخوش رہے توکیا تینوں بار فوجی سربراہان غلطی پرتھے۔
ہمارے سیاستدان خودپاک فوج کواپنی پراگندہ سیاست میں گھسیٹتے رہے اور دفاعی قیادت کے کان بھرتے اوران کے روبروایک دوسرے کی چوریوں کابھانڈا پھوڑتے رہے۔ماضی قریب میںجوسیاستدان ایک دوسرے کوقومی چور،غداراورسکیورٹی رسک قراردے رہے تھے اب اچانک ان کی توپوںکارخ پاک فوج کی طرف مڑگیا ہے۔اپوزیشن کی حالیہ اے پی سی میں کشمیر میں بھارت کی بربریت کیخلاف کوئی قراردادکیوں پیش نہیں کی گئی۔
اپوزیشن رہنماﺅں نے بھارت کیخلاف کیوں خاموشی اختیار کرلی ہے؟
اپوزیشن رہنماﺅں کی بھارتی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے ہوشربا انکشاف نے پاکستانیوں کوورطہ حیرت میں ڈال دیاہے ۔”اپوزیشن” اپنی “پوزیشن” واضح کرے۔نوازشریف نے اپنے پارٹی عہدیداران کوتوپاکستان کے فوجی حکام سے ملنے سے روک دیالیکن وہ خودبھارتی حکام سے خفیہ طورپر ملتا پھررہا ہے۔
پاکستان اپنے بے پناہ قدرتی وسائل،معدنیات کی ذخائر جبکہ بہترین نہری نظام اور قومی ضرورت سے زیادہ زرعی پیداوار کے باوجودپسماندہ رہ گیا کیونکہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کے درمیان لیگ پلنگ اوربلیم گیم کاسلسلہ چلتا رہا،لندن میں جومیثاق جمہوریت ہواوہ بھی درحقیقت مذاق جمہوریت تھا۔جس فٹ بال ٹیم کے پلیئرز میدان میں ایک دوسرے کو”پاس “دیتے ہیں وہ زیادہ گول کرتے ہیں اورجوٹیم ممبرزایک دوسرے کو”بائی پاس” کریں شکست ان کامقدربن جاتی ہے ۔ہمارے اداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ تناﺅمیں رہناریاست سمیت کسی کیلئے سودمند نہیں۔اگروہ ایک دوسرے کو”بائی پاس” کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو”پاس” دیں گے اوران میں سے کوئی “بگ باس” نہیں بنے گا تویقینا یہ سب کامیابی کے ثمرات سے مستفید ہوں گے ۔ پاکستان میں وسائل نہیں نیک نیت،نیک سیرت ،قابل اورعادل قیادت کافقدان ہے،وسائل کا بروقت اوردرست استعمال کرتے ہوئے دیرینہ وپیچیدہ مسائل سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے ۔
ہمارے حکمرانوں میں” تجمل” بہت ہے لیکن وہ” تحمل “اورتدبرسے عاری ہیں۔کسی نے پاکستان کومقروض توکسی نے معاشی طورپر مفلوج کردیا،مفلس پاکستانیوں کے سروں پرہرروزمہنگائی کاآسمان گرایاجاتا رہا۔حکمرانوں نے اپنااپنانجی کاروبار چمکایا جبکہ قومی اداروں کوبانجھ بنادیا ۔تحریک انصاف کواقتدارملے دو”برس” ہوگئے مگر عوام آج بھی انصاف کیلئے” ترس”رہے ہیں۔جس وقت سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بوجھ سے ریاست کمزور پڑگئی تو “پوش” ڈیلرز نے قومی سیاست ہائی جیک کرلی جبکہ “سفیدپوش” لیڈرزان کے تنخواہ داراوروفاداربن کررہ گئے،جوکوئی کسی سرمایہ دارکاوفادار نہیں بنا وہ فناہوگیا،یوں منتخب ایوان ویران ہوتے چلے گئے اوراشرافیہ نے انہیں اپنا مخصوص کلب بنالیا ۔جس ایوان میں ننانوے فیصد پوش براجمان ہوں وہاں دو چارسفیدپوش کچھ نہیں کرسکتے۔پاکستان کے عام لوگ بہبودگی اورآسودگی سے کیوں محروم رہ گئے کیونکہ انہوں نے اشرافیہ کو “اشرف” اورنجات دہندہ سمجھا ۔ہماراآئین کہتا ہے جوشخص تین سال صدرمملکت یاگورنراورپانچ برس منصف رہے وہ تاحیات مراعات کامستحق ہوگا،کیا ہمارامقروض ملک یہ بوجھ برداشت کر نے کامتحمل ہے۔میں سمجھتاہوں جوصدرمملکت یاگورنر بنے وہ ریاست سے تنخواہ اورمراعات وصول کرنے کی بجائے ایوان صدر اورگورنرہاﺅس میں اپنے وسائل سے صرف کرے،انہیں آئینی منصب ملنا بیش قیمت” اعزاز”ہے لہٰذاءوہ کسی” اعزازیہ” کے مستحق نہیں۔
پاکستان نے آج تک جو قرض اورجس کے دوراقتدارمیں لیااس کے اعدادوشماراوران حکمرانوں کے نام توہرکسی کویادہیں لیکن وہ رقوم کہاں اورکیوں صرف اور کس کس کی تجوری میں منتقل ہوتی رہیں یہ صرف مٹھی بھرواقفان حال کے علم میں ہے۔مقروض ملک میں سیاسی اتحاد بنانے کیلئے قومی وسائل کی بندر بانٹ کی گئی۔اگرنیب حکام ماضی کے حکمرانوں سے قومی وسائل کا حساب مانگ رہے ہیں توانتقام کاشور الزام کے سواکچھ نہیں ۔کوئی ہے جوہمارے ملک میں منافرت ،صوبائیت، پسماندگی،ناخواندگی اوردوسرے ملکوںسے پیچھے رہ جانے کے بنیادی اسباب و محرکات کاتعین کرنے کیلئے عدالتی تحقیقات کااہتمام وانتظام کرے۔اٹھارویں ترمیم کے نتیجہ میںوفاق کمزور جبکہ صوبوں کے درمیان نفاق پیداہوا ،سیاسی پارٹیز کے کردار کی بجائے صوبوں کے درمیان موازنہ منافقانہ روش ہے ۔بیشتر سیاستدان سیاست کی آڑ میںریاست پرحملے کررہے ہیں۔کوئی ہے جو دوسروں کی غلطیاں گنوانے کی بجائے اپناگناہ قبول کرے۔ ہمارے ہا ں جوبھی اقتدارمیں آیا اس نے ہرناکامی اپنے پیشرو پر ڈال دی ،جوبھی نیب کے شکنجے میں آیا اس نے کہا دوسرے بھی چورہیں انہیں گرفتارکیوں نہیں کرتے ۔نیب دوسرے چورکوگرفتارکرتی ہے توپھردونوں چور ا لٹا نیب کامیڈیاٹرائل کرتے ہیں۔
پاکستان اپنے بعد آزادہونیوالے متعدد ملکوں سے معاشی طورپرپیچھے کیوں رہ گیا،اس کے محرکات تلاش اوران کاسدباب کرنا زیادہ دشوار نہیں ہے۔ہمارے حکمرانوں کودانامشیروں کی بجائے مالش اور پالش کرنیوالے پسندآتے ہیں،وہ اپنے اپنے عہد کی معقول،معتدل ، عقیل اور نابغہ روزگار شخصیات کی خدادادصلاحیتوں سے مستفیدہونے کی بجائے انہیںسیاسی تعصب کی آگ میں جھونک دیا کرتے تھے،اگرایسانہ کیا جاتا توآج ایٹمی پاکستان ایک معاشی طاقت بھی ہوتا۔یہ ٹیکنالوجی کادور ہے جبکہ ہمارے وزیراعظم نے اس شخص کووزیرسائنس بنادیا جس نے ابھی تک خودکوشعبہ وکالت میں بھی نہیں منوایا ،سائنس سمیت کچھ وزارتوں کاقلمدان صرف ماہرین کودیاجاسکتا ہے۔یادرکھیں جولوگ اپنے ہیروز کی قدرنہیں کرتے وہ تاریخ میں قدآورنہیں ہوسکتے،پاکستانیوں کے محسن ومحبوب ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے ہوتے ہوئے آصف زرداری، ممنون حسین اور ڈاکٹرعارف علوی کوصدرمملکت بناناکیاقومی المیہ نہیںہے۔ سیاسی پارٹیوں سے وابستگی کے سوا مذکورہ حضرات کی ملک وقوم کیلئے کیاخدمات ہیں۔کیا مادروطن کے پاس ڈاکٹرعبدالقدیرخان کاکوئی متبادل ہے،ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے ہاتھوں تاریخ رقم ہونے کے بعدکیاکوئی دوسرا شخص ہمارے میزائل پروگرام کاکریڈٹ لے سکتا ہے۔
قائد ؒ، شہیدملت ؒ اور بھٹوکے بعدہم ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں ،کیا تاریخ ہماری اس ناقدری کو معاف کرے گی ۔ اگرآج بھارت اوقات میں ہے تو ہردورکامورخ یقینا اس کاکریڈٹ ڈاکٹرعبدالقدیرخان، ذوالفقارعلی بھٹواورافواجِ پاکستان کو دے گا۔میں پھرکہتاہوں “ہماری موج ہماری فوج سے ہے”،خدانخواستہ پاک فوج کی کمزوری سے پاکستان کمزورہوگا۔مٹھی بھر چور اپنے انجام کے ڈر سے ہماری افواج کااحتساب یامیڈیاٹرائل نہیں کرسکتے ۔اُن اسلامی ملکوں کاحالیہ انجام یادرکھیں جہاں فوج کی اہمیت کونہیں سمجھاگیا۔
فوج بوجھ نہیں ہوتی بلکہ اپنے ہم وطنوں کابوجھ اٹھاتی ہے ،جس طرح ارتھ کوئیک اورسیلاب کے دوران مصیبت زدگان کوہمارے فوجی جوان اپنے کندھوں پراٹھاتے اورمحفوظ مقامات پرپہنچاتے ہیں وہ جذبہ ایثار اوراحساس ناقابل فراموش ہے ۔ کیاپاکستان اورپاک فوج کی قسمت کے فیصلے کرنے کاحق اس فردواحدکودے دیاجائے جس کوآزاد عدلیہ نے زندگی بھر کیلئے نااہل قراردیا ہے ۔اگرپاکستان کے معاملے میں افواج پاکستان کے پروفیشنل آفیسرز اورجوانوں کی کمٹمنٹ،استقامت ،مہارت ،شجاعت اورشہادت کودیکھیں توہمارے سیاستدان کسی صورت ان کی برابری نہیں کرسکتے۔
اہل سیاست کیلئے ووٹ جبکہ ریاست کیلئے ووٹر اہم ہے ،اسلئے ووٹ نہیں ووٹرکو عزت دینا ہوگی.
محمد ناصراقبال خان سینئر کالم نگار ہیں اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے مختلف اخبارات میں کالم لکھ رہے ہیں.