لاہور:26 دسمبر( ڈیلی پاکستان آن لائن): مسلم لیگ نواز سینئر قیادت میں کھلبلی مچ گئی. پارٹی کےصدر شہبازشریف کو جیل ہونے کی صورت میں قائم مقام صدر شاہد خاقان عباسی اور دیگر سینئر لیگی رہنماء اپنی حیثیت کھونےلگے. لیگی اراکین اسمبلی کا مریم نوازکو اپنے استعفے جمع کرانا ایک سوالیہ نشان بن گیا. مریم نوازرکن اسمبلی نہ ہونے کے باوجود کس اختیار کےتحت استعفے وصول کر رہی ہیں، اس پر مرکزی اور صوبائی قیادت پریشان ہے.
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا دعوی ہے کہ پنجاب کے 160 اراکین اسمبلی میں سے 159 کے استعفے ان کے پاس آ گئے ہیں، حالانکہ یہ کام حمزہ شہباز کا تھا کہ وہ استعفے وصول کرتے یاان کی عدم موجودگی میں استعفے مسلم لیگ نوازپنجاب کےصدر رانا ثناء اللہ کے پاس جمع کرائے جاتے.
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو شہید نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کی اور ملک کیلیے جان دی، میاں نواز شریف اور بی بی شہید نے ملک کے لیے میثاق جموریت کیا، میں اور بلاول میثاق جمہوریت لے کر آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے لیے کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے لیے ہم سب پارٹیاں اکھٹی ہیں، مولانا فضل الرحمان اور دیگر پارٹیاں کلیئر ہیں کہ جعلی حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، حکومت کو این آر اونہیں دیں گے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے، ان کی پرفارمنس بھی خراب ہے، یہ جتنی کوشش کر لیں ناکام ہوں گے اور حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اجلاس میں بات ہوتی ہے کہ فلاں لیڈر پی ڈی ایم کے جلسے میں نہیں آیا لہذا دراڑ پڑ گئی، بلاول مردان میں نہیں آئے تو کہا جاتا ہے پی ڈی ایم میں دراڑ پڑ گئی، مجھے ان لوگوں کی حالت پر ترس آتا ہے۔
محمد علی درانی کی شہباز شریف سے جیل میں ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ جیل میں ہوتے ہیں تو معلوم نہیں ہوتا کہ ملاقات کے لیے کون آ رہا ہے، جیل میں آچانک بتایا جاتا ہے کہ کون ملنے آ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف اپنے بھائی کے ساتھ وفادار ہیں اور اسی پاداش میں بیٹے کے ساتھ جیل میں ہیں، شہباز شریف وفادار نہ ہوتے تو آج اس نالائق کی جگہ خود وزیراعظم ہوتے، دونوں لیگی ارکان اسمبلی کی نیت پر کوئی شک بھی نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا محمد علی درانی سے پہلے بھی حکومتی وزرا کی جانب سے ہمارے ساتھ رابطے کیے جاتے رہے ہیں، یہ بات واضح ہے کہ اس جعلی حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے، عجیب بات ہے کہ جہاں خاندان والوں کو ملاقات کی اجازت نہیں وہاں دوسروں کی ملاقات کیسے ہو رہی ہے۔
سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کے استعفے سے متعلق سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ جاوید عباسی خود حیران ہیں کہ ان کے استعفے حکومت کے پاس کیسے پہنچے، 31 دسمبر تک استعفے پارٹی قیادت کو جمع کرانے ہیں۔
جمیعت علما اسلام کے رہنماؤں کو پارٹی سے نکالے جانے سے متعلق سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کے لوگوں کو توڑنےکی کوشش کی تو بیک فائر ہوا اور انہیں منہ کی کھانی پڑی۔