تحریر محمد احمد
حضرتِ انسان کی فلاح کے پیشِ نظر جہاں ایک طرف عالمِ دین متحرک ہیں تو وہیں دوسری طرف تحریک انگریز مبلغین کی بھرمار ہے۔ آج نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ ہمارے اپنے ملکِ پاکستان میں کئی نامور موٹیویشنل سپیکرز ہیں۔ ان کی بااثر ترین آواز اور الفاظ نے کئی لوگوں میں ایسی تحریک پیدا کی جس سے ان میں نہ صرف مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں بلکہ وہ معاشرے کے کامیاب اور اعلیٰ شخصیت کے حامل افراد میں شامل ہوئے۔ چونکہ اخروی اور دنیاوی کامیابی تو ہر فرد کا خواب ہوتا ہے جس کےلئے وہ کسی نہ کسی طرح کوشش ضرور کرتا پے۔ اسی جستجو میں میری بھی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ایسی محافل اور تقاریب میں ضرور شرکت کروں۔ گزشتہ ماہ میں ایسی ہی ایک تقریب میں شریک تھا جہاں ہمیں ایک سرگرمی دی گئی جس کے پیشِ نظر ہمیں پندرہ منٹوں کےلئے اپنے دنیاوی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو پسِ پشت رکھ کر ذات اور ذاتی دلچسپیوں پر نظرِ ثانی کر کے اپنے اندر موجود خامیوں اور ان کی وجوہات کا ادراک کرنا تھا۔ مکمل ساکت اور گہری سوچ مجھے لمحہِ فکریہ کے دریچے میں کھینچ لائی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ میں میری ذات کے سیاہ پہلو کےلئے خود کو زمہ دار ٹھہرائے بغیر سب کچھ اللہ پہ ڈال دیتا ہوں کہ اس کے حکم کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہلتا اور شائد ابھی میرے نصیب میں ہدایت نہیں ہے۔ یقیناً اس صورتحال میں خود سے بحث مباحثہ سے دو چار ہو کر خود سے کئی سوال کر دئیے۔ کیا میرے اندر تحریک کی جستجو نہیں ہے یا پھر ان تقاریر اور مواد میں وہ اثر نہیں ہوتا جو میری کوتاہیوں، غلطیوں اور گناہوں پہ غالب آ کر مجھے صراطِِ مستقییم کی رہگزر پہ لے چلے۔ پھر یوں ہوا کہ اندر کہیں سے آواز آئی کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ دستک ہونے پہ درواذہ خود بخود کھل جائے۔ یقیناً یہ عمل ہمارے اٹھنے اور ہاتھ ہلانے سے ہی ممکن ہوگا۔ یہی حال ان تقاریر اور ایسے مواد کا ہے جو ہمیں اس بیزاری، خود غرضی، مایوسی اور بےبسی کی تاریک وادیوں سے نکالنے کا بہانہ بن رہا ہے۔ بے شک ہم کئی تقاریر سنتے ہیں، کئی کالمز پڑھتے ہیں اور کتنا ہی ایسا مواد ہماری نظروں سے گزر جاتا ہے مگر یقیناً یہ سب تو کافی نہیں ہے نہ۔ اصل تبدیلی تو میری ذات، میری ذہانت، میرے ارادے اور میری سوچ سے شروع ہوگی جو اوپنر کا کردار ادا کریں گی۔ دن بھر کام اور تلخیوں کی مشقت اٹھائے رات کو جب ہم بستر پر آتے ہیں تو ہم میں سے اکثر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں جو مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، معاشی یا دنیاوی اعتبار سے کسی بھی موضوع پر ہو سکتی ہیں مگر کیا یہ خود کو تبدیل کرنے کی مشق کہلائے گی۔ نہیں بلکل بھی نہیں۔ یہ محض ایک شغل ہے اور شغل کبھی بھی رویہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ہوتا۔ اصل ریاضت اور مشق تو تب شروع ہوگی جب ہم پختہ ارادہ لئے کوشش کرنا شروع کریں گے، جب ہم اس بات کو یقینی بنا لیں گے کہ ہمیں ہر تکلیف دینے والے احساس اور ہر منفی پہلو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے ارادے کی آگ دکھائیں گے اور ان کی وجہ سے پھیلی دھند کو مکمل طور پر ہٹا دینے کےلئے کوشاں ہونگے۔ کبھی لکڑیوں کو چولہے میں جلتے دیکھا ہے۔ جلنے کو اصل شے جو درکار ہے وہ لکڑیاں نہیں بلکہ ایک چنگاری ایک شعلہ ہے۔ پتہ ہے بھڑکتی آگ پر اگر گیلی لکڑیاں ڈالیں تو وہ یا تو سلگ کر دھواں بنا کر جلتی ہیں یا پھر بجھ جاتی ہیں اور ان کے برعکس سوکھی لکڑیاں ڈالنے پر نہ صرف آگ بھڑکتی ہے بلکہ حدت پکڑتی جاتی ہے۔ تحریک انگیز تقاریر اور تحریروں کی مثال بھی تو سوکھی لکڑیوں جیسی ہی ہے نہ جو جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں مگر یاد رکھئے گا کہ آگ جلانے میں جو سب سے موثر اور معاون ثابت ہو گا وہ ہماری اپنی کوشش اور ارادہ ہے۔ یقین مانیے جس شخص نے صراطِ مستقیم نہ پکڑنی ہو اس کے سامنے اگر دنیا کے بہترین موٹیویشنل سپیکر بھی لا کے رکھ دیں پھر بھی ہدایت نہیں پکڑے گا اور جس نے کامیابی اور فلاح تک پہنچنے کی ٹھان لی ہو وہ ایک دیوار پر چیونٹیوں کی ایک قطار کی صورت میں نقل و حرکت سے ہی نظم و ضبط کی تحریک پکڑ لیتا ہے۔
تعارف
محمد احمد جوئیہ پیشے کے لحاظ سے معلم ہیں اور جدید تعلیمی ضروریات اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں. رابطہ ای میل ahmadjoyia6756573@gmail.com