داعش اورطالبان کے درمیان مخاصمت افغانستان میں خانہ جنگی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، ماہرین
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) دہشتگردی کے ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان جاری مخاصمت ملک کے اندر خانہ جنگی کو ہوا دے سکتی ہے۔ ریٹائرڈ امریکی جنرل مارک کمٹ نے بی بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے مابین کابل ائیرپورٹ کے داخلی راستوں کی سیکورٹی کے حوالے سے ایک معاہدہ ہوا ہے اور طالبان کے لیے اس مشن میں ناکام ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ آئندہ ملک کے اندر کیا ہونے والا ہے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ طالبان دنیا کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ذمہ داری سے حکومت کر سکتے ہیں اور اگر وہ اس سادہ مشن میں ناکام رہتے ہیں تو یہ طالبان کے لیے بہت زیادہ شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ آئی ایس آئی ایس اور طالبان جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کا کابل ائیرپورٹ کے باہر کنٹرول ہے ان دونوں کے درمیان مخاصمت کی ایک تاریخ ہے۔ جمعرات کو کابل ائیرپورٹ پر ہونے والے حملے میں داعش کا امریکہ اور طالبان دونوں کو واضح پیغام ہے کہ کابل میں جس کی بھی حکومت ہوگی وہ اس کے خلاف دہشتگردانہ حملے جاری رکھیں گے۔ 2015میں داعش بڑی سرعت کے ساتھ افغانستان میں اپنے پنجے گھاڑنے میں کامیاب ہو گئی تھی اور اس وقت طالبان ایک طرف امریکہ کے خلاف جنگ میں مشغول تھا اور دوسری طرف داعش کے ساتھ بھی اس کی لڑائی جاری تھی۔ داعش نے اپنے حریف طالبان کے مقابلے میں متبادل جد وجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ 2017میں طالبان، امریکہ اور اس وقت کی افغان حکومت نے داعش کے خلاف کامیاب آپریشنز کئے تاہم داعش دوبارہ خود کو تیزی کے ساتھ سنبھالنے میں کامیاب رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق داعش کی خراسان شاخ اس گروپ کے کم از کم ایک درجن یا اس سے زیادہ عسکریت پسند دھڑوں میں سے ایک ہے جو داعش کی چھتری کے نچے سرحدوں کے پار ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔امریکہ کی ملٹری اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ کے کمبیٹنگ ٹیررازم سینٹر کے لیے امیرہ جدون کی جانب سے مرتب کی گئی 2018 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) میں داعش خراسان کے حملوں کی نوعیت اور وقت میں پائی جانے والی مماثلتیں اور تفصیلات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پاکستان افغان خطے میں اس شاخ کی سرگرمیاں کافی حد مربوط ہیں۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ امریکی حکومت اور افغانستان کی سابق سرکاری فوج کی مدد کے بغیر یہ ممکن نظر نہیں آ رہا کہ طالبان داعش کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے طالبان سرمایہ کاری اور تکنیکی مہارت حاصل کرنے اور بین الاقوامی حمایت یا قبولیت حاصل کرنے کی کوششوں میں چین، ترکی، ایران اور روس تک سے رابطے میں ہیں لیکن افغانستان میں داعش کی طاقت ان کوششوں کو کمزور کرسکتی ہے۔جارج ٹاون میں خارجہ تعلقات کونسل کے انسداد دہشت گردی کے ماہربروس ہوفمین کا کہنا ہے کہ طالبان عام شہریوں کو ڈرا دھمکا کر یا ان پر حملہ کر کے دبانے میں ماہر ہیں لیکن جب انہیں اپنی ہی جیسی ایک دہشتگرد تنظیم سے لڑنا پڑے تو وہ اس معاملے میں نااہل ثابت ہوں گے۔ طالبان تحریک سے وابستہ ایک عہدیدار ابو محمد کا کہنا تھا کہ داعش کا مقصد طالبان اور امریکہ کے مابین جاری ہم آہنگی میں خلل ڈالنا تھا اور یہ ہم سب کے لیے ایک سخت سبق ہے اور خاص طور پر ان لوگوںکے لیے جو افغانستان کو چھوڑ کر امریکہ اورمغرب میں بسنا چاہتے ہیں۔
Home / انٹر نیشنل / داعش اورطالبان کے درمیان مخاصمت افغانستان میں خانہ جنگی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، ماہرین