دہشت گردی، جعلی خبروں، اور سوشل میڈیا پر منفی رجحانات کے خلاف مؤثر اقدامات ،بھارتی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے اورخواتین و بچوں کے مسائل کے لیے مربوط پارلیمانی فورمز کے قیام پر اتفاق
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن +این این آئی)سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت 18 ویں سپیکرز کانفرنس نے ملک کی تمام اکائیوں کی اسمبلیوں نے متفقہ مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ، 23 نکاتی فیصلوں کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ میں پارلیمانی اقدار کو فروغ دینا، قانون سازی میں شفافیت یقینی بنانا، اور عوامی مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات، آئین کی بالادستی، پارلیمانی نظام میں شفافیت، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قانون سازی، اور خواتین و بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے پارلیمانی اداروں کو مضبوط بنانے کا اعادہ کیا گیا۔سپیکر کانفرنس نے دہشت گردی، جعلی خبروں، اور سوشل میڈیا پر منفی رجحانات کے خلاف مؤثر اقدامات ،بھارتی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے اورخواتین و بچوں کے مسائل کے لیے مربوط پارلیمانی فورمز کے قیام پر اتفاق کیا۔ اعلامیہ میں پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی معاونت کے لیے توسیع دینے اورسپیکرز کانفرنس کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے آئندہ اجلاس 2025 میں مظفر آباد میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دو روزہ 18ویں سپیکرز کانفرنس اسلام آباد میں سپیکر قومی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی ،ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفی شاہ ، وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ ، آزاد کشمیر اسمبلی کے سپیکر چوہدری مجید اکبر، بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کیپٹن (ر)عبدالخالق اچکزئی ،گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر نذیر احمد ،سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر خان سواتی ،سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان ،سپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ نے شرکت کی۔ تمام سپیکرز کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان کی عوام نے جمہوریت کے حصول اور ایک وفاقی اسلامی جمہوری پارلیمانی اور جدید ترقی پسند فلاحی ریاست کے قیام کے لیے انتھک محنت کی، جہاں شہریوں کے حقوق محفوظ ہیں اور صوبوں کا وفاق میں مساوی حصہ ہے۔یہ فورم ا قرار کرتے ہوئے کہ آئین اور قرارداد مقاصد کے تحت ایک پارلیمانی نظام میں ریاستی اختیارات صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی استعمال ہو سکتے ہیں ، یہ سفارش کر تا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے قواعد و ضوابط کو آئینی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ انتظامیہ کی اسمبلیوں کے سامنے جواب دہی، متعلقہ وزارتوں پر پارلیمان کی آئینی گرفت اور مینڈیٹ کے احترام کو یقینی بنایا جا سکے۔ پارلیمانی اداروں پر عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے قانون سازی کے عمل میں احتساب اور شفافیت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور عوام کے درمیان با اعتماد رابطہ کے لیئے پارلیمان کو اپنے قانون سازی، نگرانی اور نمائندگی کے اختیاراتکے موثر استعمال کے ذریے عوامی مسائل کی وکالت کی ذمہ داری ادا کرتی ہے۔فورم نے سیاسی میدان میں جذباتیت کے رجحان کے باعث ملکی سیاست میں توہین آمیز زبان کا استعمال، جعلی خبریں اور سوشل میڈیا پر الزام تراشی سے تصادم اور انتقامی سیاست پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ تہذیب ، شائستگی اور اختلاف رائے کے احترام کے کلچر کا خاتمہ پارلیمانی اقدار کو مجروح کرتا ہے ، تفریق کو ہوا دیتا ہے اور تعمیری مکالمے کو روکتا ہے۔ مشترکہ مسائل سے نمٹنے، قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور سماجی انصاف کے اصولوں کی اجتماعی بالادستی قائم رکھنے کیلیے وفاق اور صوبائی قانون ساز اداروں کے مابین تعاون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔فورم نے قرار دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسائل، تیزی سے تبدیل ہوتی ٹیکنالوجی، سماجی و اقتصادی عدم مساوات اور پاکستانی عوام کی بدلتی ہوئی ضروریات دور حاضر کے اہم چیلنج ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ علاقائی اور بین الاقوامی امن، علاقائی تعاون اور افہام و تفہیم میں پیش رفت کے لیئے پارلیمانی سفارتکاری کی خاص اہمیت ہے۔ فورم نے قومی اسمبلی کی جانب سے اسلام آباد میں اٹھارویں سپیکرز کانفرنس کی میزبانی کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے عزم کیا کہ پاکستان کے آئین کو ملک کے اعلی ترین قانون کے طور پر برقرار رکھنے، اس کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے، ابہام کو بات چیت کے ذریعے دور کرنے ، اور ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی جانب سے اس کے وقار کو مجروح کرنے اور کسی بھی خلاف ورزی کرنے کا مقابلہ کریں گے۔
Daily Pakistan Online News, Sports, Blogs, Media
