کمسن بیٹی کو قتل جرم میں عرفان شریف 40سال اور بینش بتول 30سال قید کاٹیں گے’لندن کی عدالت کا حکم
لندن ( ڈیلی پاکستان آن لائن )لندن کے علاقے ووکنگ میں قتل کی جانے والی 10سالہ سارہ شریف کے پاکستانی نژاد والد عرفان شریف اور سوتیلی ماں بینش بتول کو کمسن بیٹی کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنادی گئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق لندن کے علاقے اولڈ بیلی کی عدالت نے 43سالہ عرفان شریف اور 30سالہ بینش بتول کو سارہ شریف کے قتل کے جرم میں سزا سنائی۔جج نے ملزمان کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ عرفان شریف کم از کم 40سال اور بینش بتول کم از کم 33جیل کاٹیں گے۔سارہ کے چچا اور عرفان شریف کے بھائی فیصل ملک کو اس کیس میں قتل کے الزام میں تو نہیں تاہم ایک بچے کی موت کا سبب بننے یا ایسا ہونے دینے پر مجرم قرار دیا گیا اور انہیں اس کے لیے 16برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔سارہ شریف صرف 10سال کی تھی جب وہ اگست 2023میں اپنے بستر پر مردہ پائی گئی، اس کا جسم جگہ جگہ سے کٹا ہوا تھا اور زخموں کے نشانات واضح تھے، ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور جلنے کے نشانات بھی پائے گئے تھے۔پوسٹ مارٹم سے پتا چلا کہ سارہ کے جسم پر 100سے زیادہ زخم تھے اور کم از کم 25ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ان کے 43سالہ والد عرفان شریف نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ان کی موت سے چند ہفتے قبل اسے کرکٹ کے بیٹ سے مارا تھا، اس نے اپنے ننگے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹ دیا اور اس کی گردن کی ہڈی کو توڑ دیا۔عرفان شریف اور سارہ کی سوتیلی ماں 30سالہ بینش بتول کو گزشتہ ہفتے لندن کے اولڈ بیلی میں 10ہفتوں تک مقدمے کی سماعت کے بعد مجرم قرار دیا گیا تھا۔بچی کے 29سالہ چچا فیصل ملک کو ان کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا قصوروار پایا گیا تھا۔سارہ کی موت کے ایک روز بعد تینوں افراد لندن کے جنوب مغرب میں واقع اپنے گھر سے فرار ہو کر 5دیگر بچوں کے ساتھ پاکستان چلے گئے تھے۔مقدمے کی سماعت کے دوران 10سالہ سارہ شریف کو طویل عرصے تک تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی دلخراش کہانی سامنے آئی تھی۔برطانیہ میں اس بات پر غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ سارہ کے ساتھ ہونے والے سفاکانہ سلوک کو محکمہ سماجی خدمات نے نظر انداز کر دیا تھا، کیونکہ ان کے والد نے ان کی موت سے 4 ماہ قبل انہیں اسکول سے نکال لیا تھا۔سارہ کی ٹیچر نے عدالت کو بتایا کہ وہ کس طرح حجاب پہن کر کلاس میں آئی تھی، وہ اپنے جسم پر نشانات کو ڈھانپنے کی کوشش کرتی تھی، جس کی وضاحت کرنے سے اس نے انکار کر دیا۔استغاثہ کے مطابق پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس وقت سارہ کی لاش کے آگے عرفان شریف کا لکھا ہوا ایک خط بھی موجود تھا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔نوٹ میں لکھا تھا کہ میں عرفان شریف ہوں، جس نے اپنی بیٹی کو مار مار کر قتل کیا، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن میں نے اسے کھو دیا۔خط میں انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈر کر بھاگ رہے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔عرفان شریف نے خط میں مزید لکھا کہ آئی لو یو سارہ، انہوں نے خط میں درخواست کی میری بیٹی مسلمان ہے، کیا تم اسے دفن کر سکتے ہو، جیسے کہ مسلمان کو کیا جاتا ہے، میں پوسٹ مارٹم مکمل کرنے سے پہلے واپس آ جائوں گا۔عدالت میں پیش کی جانے والی میڈیکل رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے جس میں بتایا گیا کہ 10سالہ سارہ شریف کے جسم پر 70سے زائد زخم پائے گئے تھے۔محکمہ قانون نے انکشاف کیا کہ 10اگست 2023ء کو ووکنگ سرے میں آبائی گھر سے ملنے والی سارہ کی لاش پر اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کی چوٹیں موجود تھیں۔پیتھالوجسٹ ڈاکٹر نیتھانیل کیری نے بتایا کہ بچی کے جسم پر گہرے زخم، جلنے، رگڑ اور خراشوں کے علاوہ انسانی کاٹنے کے نشانات پائے گئے تھے جبکہ اسے گرم پانی اور استری سے بھی جلایا گیا تھا۔
Daily Pakistan Online News, Sports, Blogs, Media
