تحریر:فیصل محمود اعوان
”وزیراعظم نے ٹیکس فراڈ کی نشاندہی پر ایف بی آر افسر کو50لاکھ روپے نقد انعام سے نواز دیا”۔ جس طرح میں نے میڈیا میں یہ خبر دیکھی اسی طرح دیگر لوگوں نے بھی دیکھی ہو گی اور یقینا میری طرح دیگر لوگوں خاص طور پر ایف بی آر کے افسران کو بھی ”رشک ” آیا ہوگا کہ 50لاکھ روپے کا انعام وہ بھی ” ایمانداری ” پر ۔یہ سوچتے سوچتے کچھ سال قبل سوشل میڈیا پر پڑھی گئی ایک پوسٹ یاد آ گئی اور اسے سرچ کرنے لگا اور وہ خوش قسمتی سے مل ہی گئی جس کا عنوان ”رمضان اور ایک جاپانی لڑکی” تھا۔پوسٹ کا متن کچھ یوں ہے کہ می وا(Miwa)نامی ایک جاپانی لڑکی تھی، آفس کلیگ تھی، رمضان شروع ہوئے تو کہنے لگی یہ جو تم رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو، اس سے تمہیں کیا ملتا ہے؟۔میں نے اسے بتایا کہ روزہ ایک عبادت ہے اور یہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ، بلکہ روزہ کے درمیان جھوٹ نہ بولنا، ایمان داری سے اپنا کام کرنا، پورا تولنا، انصاف کرنا وغیرہ وغیرہ، ان تمام برے کاموں سے بھی بچنا ہوتا ہے۔می وا(Miwa)بڑی سنجیدگی سے بولی کہ آپ کے تو مزے ہیں جی، ہمیں تو سارا سال ان کاموں سے بچنا ہوتا ہے اور آپ کو بس ایک مہینہ۔سوشل میڈیا کی پوسٹ کے ذریعے تمہید باندھنے کا صرف ایک خاص مقصد اور سوال اٹھانا ہے کہ ایف بی آر کے افسر کو ٹیکس فراڈ کی نشاندہی پر 50لاکھ روپے کا انعام کیوں دیا گیا؟ ۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ کو ایماندار افسران کی پذیرائی نہیں کرنی چاہیے لیکن مذکورہ افسر جنہیں یہ انعام دیا گیا ہے کہ کیا ایمانداری سے کام کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں جو انہیں عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے محصولات سے 50لاکھ روپے کے بھاری بھرکم انعام سے نوازدیا گیا ۔ اس انعام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر میں ٹیکس فراڈ نہیں پکڑا جاتا اور مذکورہ افسر نے غیر معمولی کام کیا ہے جس پر انہیں انعام سے نوازا گیا ۔ ایف بی آر کے سینئر افسر نے چاہے کھربوں روپے کے سیلز ٹیکس فراڈ کی کوشش کی نشاندہی کی ہے جو یقینا قابل ستائش ہے لیکن اس طرح کے انعام کے ساتھ یہ پذیرائی بنتی ہے کم از کم میری سمجھ سے تو بالا تر ہے ۔ ہم جس نبی ۖکی امت ہیں ان کی تعلیمات کیا ہیں؟ ۔ ہم اسی نبیۖ ۖکی امت ہیں جو کچھ اونٹ فروخت کرتے ہیں ان میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہوتا ہے جب یاد آتا ہے تو اونٹ خریدنے والے تاجر کے پیچھے جاتے ہیں اور اس کے سامنے ساری حقیقت بیان کرتے ہیں ۔ عوام بجلی چوری پکڑوائیں انعام پائیں، ٹیکس فراڈ پکڑوائیں انعام پائیں آخر یہ سب کچھ پاکستان میںہی کیوں ہے ؟۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بطور قوم ہم انتہائی تنزلی کاشکار ہیں ۔ میں یہاں ایک بات کہنا چاہتا ہوں ہمارا معاشرہ بیگاڑ کی منازل طے کرتا ہوں جس نہج پر پہنچ گیا ہے میرے خیال میں وزیر اعظم صاحب پچاس لاکھ تو کیا ایف بی آر کے افسران اور عملے کے لئے ایک، ایک کروڑ نقد دینے کا بھی اعلان کر دیں تو اربوں روپے کی ٹیکس لیکج نہیں رک سکے گی ، ٹیکس پیئرز کو ٹیکس کے محکمے کے افسران اور عملے کی جانب سے ہی چوری کے راستے دکھانے کا سلسلہ نہیں رک سکے گا ۔ اگر آپ کی یہ توقعات ہیںکہ ہم لوگ انعامات سے سدھر جائیں گے تو کر کے دیکھ لیں ، صبح ہی تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کے لئے انعامی سکیموںکا اعلان کر دیں کہ کرپشن پکڑیں ، فراڈ پکڑیں ، ایمانداری سے کام کریں لاکھوں کا انعام پائیں ، نتیجہ چند مہینوں نہیں چند ہفتوں بھی نہیں چند دنوں میں سامنے آ جائے گا۔ یہی کہوں گا اب جیسے تیسے بھی ہے نظام کو چلتا رہنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل جو آج پرائمری کی سطح پر تعلیم حاصل کر رہی ہے ان پر توجہ مرکوز کریں ،انہیں ملک سے بے لوث محبت کرنا ، ملکی قوانین کا احترام کرنا ، کرپشن کے ناسور سے نفرت کرنا سکھائیں، ان کے اخلاق کو بہتر کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے، دوسروں کی مدد کرنا سکھایا جائے اس پر توجہ دیں ، انہیں یہ بتایا جائے جوگاڑ اور شارٹ کٹ عارضی حل ہے ، جتنا بھی نقصان ہو جائے سیدھے راستے پر چلنا ہے ،سبز پرچم کی کیسے عزت کرانی ہے انہیںیہ بتانا ہے ، بیرون ممالک ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی کہ متحدہ عرب امارات جیسے مسلم ملک کو ہمارے اوپر ویزے کی پابندیاں نہ لگانا پڑیں ۔ خدارا نئی نسل پر ” سرمایہ کاری ” کریں ، ایم این ایز ، ایم پی ایز کو کروڑوں، اربوں روپے کے فنڈز دینے کی بجائے نئی نسل کو جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنے پر خرچ کریں یہ ”سرمایہ کاری ”ڈیڑھ سے دو دہائیوں میں اتنے منافع کے ساتھ واپس لوٹے گی کہ ہم واقعی اپنے اوپر رشک کریں گے۔

Daily Pakistan Online News, Sports, Blogs, Media
