Home / دلچسپ و عجیب / سیکس کی لت ایک بیماری؟

سیکس کی لت ایک بیماری؟

ایک معاشرے کے طور پر ہم سگریٹ، شراب اور دیگر منشیات کی لت ہونا تو تسلیم کرتے ہیں اور اس پر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے مضر ہیں۔ مگر جب بات آتی ہے سیکس کی تو ماہرین میں اس بات پر متفق نہیں کہ کیا کسی شخص کو اس کی لت لگ سکتی ہے۔

سیکس کی لت کو فی الحال کسی کلینکل بیماری کا درجہ حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے پاس سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

مگر سیکس کی مبینہ لت سے متاثرہ افراد کے لیے بنائی گئی ایک سیلف ہیلپ ویب سائٹ کے ذریعے اس سائٹ پر 2013 سے اب تک سائن اپ کرنے والے 21000 افراد کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے 91 فیصد مرد تھے اور ان میں سے صرف 10 فیصد نے اس حوالے سے اپنے ڈاکٹر کی مدد مانگی تھی۔

امریکہ اور اور برطانیہ میں ذہنی امراض کے حوالے سے استعمال کیا جانے والا اہم کتابچہ ’ڈائگناسٹک اینڈ سٹیٹسٹیکل مینوئل آف منٹل ڈس آرڈرز‘ کے سنہ 2013 ایڈیشن میں سیکس کی لت کو بطور ایک بیماری شامل کیے جانے پر غور کیا گیا تھا تاہم ناکافی شواہد کی بنا پر اسے شامل نہیں کیا گیا۔

تاہم عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے تیار کیے جانے والے کتابچے انٹرنیشنل کلاسیفیکیشن آف ڈیزیز میں ’مجبور جنسی رویے‘ کو شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

اس سے پہلے جوئے کی لت کو ’مجبور رویے‘ کے زمرے میں تصور کیا جاتا تھا اور سنہ 2013 میں جوئے کی لت اور کھانے کے حوالے سے ذہنی مسائل کو نئے شواہد سامنے آنے کے بعد رسمی طور پر بیماریوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا۔

کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ سکیس کی لت بھی اسی طرح ایک بیماری کے طور پر مانی جائے گی۔

سنہ 2014 میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ سکیس کی لت سے دوچار افراد کے ذہنوں میں پورن فلمیں دیکھ کر وہی عمل ہوتا ہے جو کہ کسی نشہ کرنے والے کو اپنی پسندیدہ منشیات دیکھا کر ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کی ڈاکٹر ویلری وون جو کہ اس تحقیق کی سربراہ تھیں، کہتی ہیں ’یہ وہ پہلی تحقیق ہے جس نے لوگوں کی مشکلات کو ذہنی عمل کے تناظر میں دیکپا ہے مگر ہم ابھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک لت ہے۔‘

ادھر دوسری جانب ایک اور معاملہ لت کی تعریف ہے۔ کیا سیکس ایک لت ہو سکتی ہے، اس سوال کا جواب آپ اسی تناظر میں دیں گے کہ آپ کے خیال میں لت ہوتی کیا ہے۔

اس کی کوئی سرکاری یا عالمی طور پر متفقہ تعریف نہیں ہے۔

اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر فریڈرک ٹوئٹس کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ کوئی ایسی چیز ہے جس میں کوئی شخص نفسیاتی طور پر اس پر منحصر ہو، اس کا ماننا ہو کہ اسے چھوڑنے سے مجھے جسمانی نقصان ہو سکتا ہے، تو پھر سیکس کو آپ ایک لت نہیں قرار دے سکتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے وسیع تر تعریف زیادہ کارآمد ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی لت کی نشاندہی کرنے کے لیے دو اہم نقات ہیں، ایک یہ کہ اس کو کر کے کسی قسم کا فائدہ یا تسکین کی تلاش کی جا رہی ہو اور اس کے حوالے سے کشیدگی ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تسکین کی تلاش کا عنصر کسی بھی لت کو او سی ڈی سے الگ کرتی ہے تاہم دونوں میں مماثلت ہے۔

جو لوگ کسی بھی لت سے دوچار ہیں جو وقتی فائدہ اور تسکین حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے وہ بعد میں ان کے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔

مگر تسکین کی تلاش کو ہم سب کر رہے ہیں۔۔۔ تو پھر کیا چیز ہے جو ایک لت کو مختلف بناتی ہے۔

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہیرئٹ گیروڈ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی رویہ اس وقت لت بن جاتا ہے جب وہ آپ کو یا آپ کے ارد گرد کے لوگوں کو نقصان پہنچانے لگے۔

یہی وجہ ہے کہ کھانے اور جوئے کے حوالے سے انھیں لت تسلیم کیا جاتا ہے مگر سیکس کو ایک لت نہیں تصور کیا جاتا۔

سکیس کی لت ایک افسانوی بات ہے؟

مگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکس کی لت کوئی حقیقی بیماری نہیں۔

سیکس تھیراپسٹ ڈیوڈ لی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’سیکس کی لت کی غلط کہانی‘۔ ان کا کہنا ہے کہ جسے ہم سیکس کی لت کہتے ہیں وہ اصل میں موڈ اور بے تابی کے مسائل کی علامت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سیکس یا خود لذتی کو منشیات یا شراب کی لت سے ملانا پاگل پن ہے۔ شراب کے عادی لوگ اس کے نہ ملنے سے مر سکتے ہیں۔‘

تاہم جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسے ایک بیماری کے طور پر مان لیا جائے ان کی کوشش ہے کہ جو لوگ اس مسئلے کا شکار ہیں انھیں وہ وسائل مل سکیں جو انھیں درکار ہیں، چاہے وہ بے تابی ہے یا کوئی لت

About Muhammad Imran Khan

Check Also

ماسک پہننے سے کوویڈ کیسز میں 53 فیصد کمی، عالمی تحقیق

ماسک پہننے سے کوویڈ کیسز میں 53 فیصد کمی، عالمی تحقیق لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن)برٹش …

Skip to toolbar