Home / بلاگ / گدھا شناسی تک کا سفر

گدھا شناسی تک کا سفر

گدھا شناسی تک کا سفر

شہزاد جاوید

آپ سب نے گدھا ضرور دیکھا ہو گااگر کسی نے نے نہیں دیکھا تو وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائے اسے گدھا نہیں تو کم از کم گدھا نما کئی چیزیں ضرورنظر آ جائیں گی ۔تاہم ایسا کرتے ہوئے آپ کو انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے اسی وقت کوئی اور بھی اسی نیت سے ادھر ادھر نظر دوڑا رہا ہو۔گدھا بہت ہی شریف جانور ہے اتنا کہ اسے گدھا بھی کہہ لیں تو وہ ناراض نہیں ہوتا بلکہ گدھا بن کر کہنے والے کا منہ تکتا رہتا ہے۔(شائد اس کو کسی بچھڑے عزیز کی تلاش ہو تی ہے)۔ کہتے ہیں کہ گدھا ایک خاموش طبع جانور ہے اتنا خاموش کہ اس کی گھر والی بھی بہت کم بولتی ہے۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ گدھا صرف اسی وقت وقت ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا ہے جب اسے کوئی شیطان دکھائی دے۔ ہمارے ساتھ آپ بھی اس بات سے انکار کریں گے۔ اگر وہ بات درست ہوتی تو آج کے دور میں گدھوں کی ساری عمر ڈھینچوں ڈھینچوں میں ہی گزر جائے۔البتہ کبھی کبھا رکوئی انتہائی گدھا کسی شیطان کو دیکھ کر ڈھینچوں ڈھینچوں کا راگ الاپنا شروع کر دے تو پھر وہ اسی وقت چپ ہوتا ہے جب اسے شیطان کے دم دبا کر بھاگنے کا یقین نہ ہو جائے۔گدھا بار برداری کے کام آتا ہے۔ وہ بوجھ اٹھاتا ہے اور مالک کی مار بھی کھاتا ہے۔لہذا آپ جہاں کہیں بھی کسی جاندار کو بلا کسی حیل وحجت کے بوجھ اٹھائے اسے مار کھاتا دیکھے تو سمجھ جائیں کہ یہی گدھا ہے۔تاہم احتیاطآ پہلے اس کی دم ٹٹول کر اس کے گدھا ہونے کی پڑتال ضرور کر لیں ورنہ ساری ذمہ داری آپ کی اپنی ہوگی۔ شروع شروع میں آپ ضرور غلطی کریں گے مگر آہستہ آہستہ آپ کو اصل گدھے کی خوب پہچان ہو جائے گی۔گدھا بہت زیادہ موقع شناس ہوتا ہے اس لئے اس کی نظر میں مرغے کی ایک ہی ٹانگ ہوتی ہے۔ویسے موقع شناس کچھ اور جاندار بھی ہوتے ہیں۔اور انہی کی وجہ سے بعض اوقات اچھے بھلے گدھے کو انسان کے باپ کے مرتبے پر بھی فائز ہونا پڑتا ہے۔دنیا میں جتنے بھی گدھے ہیں وہ رنگ روپ ،قد کاٹھ اور شکل وصورت میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
یعنی سارے ہی گدھے ہوتے ہیں۔گدھے کے سر پر سینگ بھی ہوتے ہیں مگر وہ جلد ہی غائب ہوجاتے ہیں۔ گدھے اور کمہار کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ہر کمہار کے پاس ایک گدھا ہوتا ہے مگر ہر گدھے کا مالک کمہا رنہیں ہوتا۔جو کمہار گدھے کا مالک ہوتا ہے اس کی جان بھی ہمیشہ عذاب میں ہی رہتی ہے۔کیونکہ لوگ گدھے سے گر کر اکثر اس کا غصہ کمہار پر ہی اتارتے ہیں۔گدھا بڑا ہی قناعت پسند اور صابر قسم کا جانور ہے اسے جتنی گھاس ملے وہ اسی میں گزارا کر لیتا ہے۔اپنی قناعت پسندی کے باعث ہی اس نے آج تک زیادہ گھاس اور کام چوری کے لئے کوئی یونین نہیں بنائی۔ گدھے کا بچہ بھی گدھا ہی ہوتا ہے یعنی خاندانی روایات کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے۔وہ رجحان اس جنس میں ترقی پسندانہ سوچ کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔یعنی گدھا جتنی ترقی چاہے کر لے رہے گا وہ گدھے کا گدھاہی۔گدھوں میں ترقی پسندانہ کی بجائے تنزلی پسندانہ رجحانات زیادہ پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پیدائش کے وقت تمام جانداروں میں خوبصورت ترین بچے کا اعزاز پانے والا بڑا ہو کر گدھا ہی نکلتا ہے۔ہاں کبھی کبھار اسے کھوتے کا پتر بھی بننا پڑجاتا ہے۔اکثر لوگ کہتے ہیں کہ گدھا کبھی ترقی نہیں کر سکتا کم از کم ہمیں تو اس کا مستقبل بہت ہی شاندار نظر آتا ہے اگر کبھی چاند یا مریخ پر آباد کاری کی ضرورت پڑی تو انسان کے ساتھ سب سے پہلے گدھے ہی وہاں جائیں گے۔ کیونکہ ان کی اونچی نیچی سطحوں پر مٹی ڈھونے کا کام گدھوں سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ گدھا ایک سائیں لوگ قسم کا جانور ہے جو نمک اور روئی میں تمیز نہیں کر سکتا۔لہذاوہ ندی سے گزرتے ہوئے ہر بار پانی میں بیٹھ کر نمک اور روئی میں فرق محسوس کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔گدھے کو سندھی زبان میں کھوتا کہتے ہیں اسی وجہ سے سندھ میں گدھا کم اور کھوتے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔دونوں میں بہت معمولی سا فرق ہوتا ہے جو صاحب کمال لوگوں کو آسانی سے نظر آ جاتا ہے۔گدھا گدھاہوتا ہے اور کھوتا وہ ہوتا ہے جو گدھے کوبھی اپنا باپ بنانے کی قدرت رکھتا ہو۔اس حساب سے ہمارے ملک میں کھوتوں کی تعدا گدھوں سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ ویسے کھوتا وہ بھی ہوتا ہے جو سوتا ہے۔انسان نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں اقسام کے ہتھیار ایجاد کئے ہیں مگر ان میں سے ایک بھی ہلاکت آفرینی میں گدھے کی دولتی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔ےہ ایک گائیڈڈ ہتھیار ہے جس کا نشانہ شاذو نادر ہی خطا ہوتا ہے۔
جو بھی ایک بار اس کی زد میں آ جائے وہ باقی ساری عمر اس جنس پر غلط نظر ڈالنے کی جرآت نہیں کر سکتا۔بعض لوگ کھوتے کو بالکل پسند نہیں کرتے اس لئے وہ اکثر کھوتا کھوہ میں ڈالتے رہتے ہیں۔کھوتا بظاہرآ معصوم جانور ہے مگر اس کھوتی کی شان ہی نرالی ہوتی ہے جو تھانے سے ہوآتی ہے۔تاہم وہ کھوتی بھی کبھی نہ کبھی بوہڑ کے نیچے آ ہی جاتی ہے۔گدھا طبعآ ایک بزدل جانور ہے اس کے باوجود بعض محفل باز قسم کے لوگ اس کو شیر پرحاوی کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔گدھے کو انگریزی میں ڈونکی کہا جاتا ہے۔ انگریز اس جانور کو کافی مقدم رکھتے ہیں۔ بعض سیاسی لوگ تو اس کے حوالے سے پہچانے جانے میں باقائدہ فخر محسوس کرتے ہیں۔اس سے محبت کرنے والوں نے انسانی حیات کے لئے اہم ترین چیز”پانی“ کے حصول والی مشین کو بھی ڈونکی پمپ کا نام دے رکھا ہے۔وہ مشین گدھے کی طرح ہی ڈھینچوں ڈھینچوں کرتی ہے دونوں میں ںفرق صرف زبان کا ہوتا ہے ورنہ ٹیون دونوں کی ایک ہی ہوتی ہے۔گدھا ہمارے ہاں حماقت جبکہ امریکہ میں ذہانت کی علامت سمجھا جاتا ہے گدھا شناسی کے اسی رجحان کی وجہ ہم امریکیوں کو سیانا اور وہ ہمیں گدھا سمجھتے ہیں۔

شہزاد جاوید سینئر صحافی، ناول نگار اور تجزیہ نگار ہیں. وہ گذشتہ تین دہائیوں سے قومی اردو اخبارات سے منسلک رہے ہیں. ان کی تحریروں میں سب سے نمایاں خوبی طنزومزاح ہے. وہ مشکل ترین بات کو بھی سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں. وہ اب باقاعدہ طور پر بین الاقوامی شہرت کی حامل ویب سائٹ “اعتماد نیوز” کے لیے لکھا کریں گے. ان سے درج ذیل ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے
sjavaid786@hotmail.com

User Rating: Be the first one !

About Daily Pakistan

Check Also

نامعلوم افراد کی aاداکارہ مالا کی گاڑی پر فائرنگ، بھائی جاں بحق

فیصل آباد (غیلی پاکستان آن لائن) نامعلوم افراد نے سٹیج اداکارہ اور میک اپ آرٹسٹ …

Skip to toolbar