Home / بلاگ / سیاستدانوں کے جوتے، عوام کے سر

سیاستدانوں کے جوتے، عوام کے سر

تحریر

قمر جبار

ایک بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ بسا اوقات نیا جوتا پہنو تو پاؤں میں کاٹتا کیوں ہے۔ بچپن میں تو والد محترم کے سامنے رو پیٹ لیا کرتے تھے کہ نیا جوتا کسی کام کا نہیں، دوسرا لا کر دو۔ خیر وہ یا تو تبدیل کرا دیا کرتے تھے یا محلے کے موچی بابا سے ٹھیک کرا دیا کرتے تھے۔ بہرحال ایک تجسس ذہین میں رہا کہ کیا وجہ ہے کہ نیا جوتا جو فٹ بھی ہو اور کاٹے بھی۔ اسی تجسس کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق شروع کی تو پتا چلا کہ جب سے انسان موصوف نے جوتے کو اہمیت دینا شروع کی تو چند ایک کے دماغ خراب ہو گئے اور دانت نہ ہونے کے باوجود انہوں نے پاؤں پر کاٹنا شروع کر دیا۔

پہلا محاورہ تو جوتوں کے متعلق والد محترم سے ہی سنا کہ جب کوئی الٹی سیدھی حرکت سرزرد ہو جاتی تو ایک کڑاکے کی آواز سنائی دیتی کہ تیرا جوتے کھانے کو دل کر رہا ہے کیا؟

اتنا سننے کے بعد اعصاب پر سکتہ طاری ہو جاتا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ رات کے کھانے میں جوتے مل جائیں۔ خیر وقت گزرتا گیا۔ ایک دن حوصلہ باندھ کر اسکول ٹیچر سے پوچھ لیا کہ سر جوتا کاٹتا کیوں ہے؟

وہ سمجھے کہ شاید میں نے ان کی تضحیک کر دی فورآ غصے سے بولے کہ تیرے سر پر ایسے جوتے برساؤں گا کہ تجھے نانی یاد آ جائے گی دفعہ ہو جاؤ نالائق کہیں کا۔ اب یہ دوسرا محاورہ سن کر حیرانی میں اضافہ ہوا۔

ایک دن بڑے بھائی کو پریشان حال بیٹھا دیکھ کر پوچھ لیا کہ چہرے پر چھائی اس اداسی کا کیا سبب ہے؟ کہنے لگے نوکری کی تلاش میں جوتے کھیساتا پھر رہا ہوں کوئی کام نہیں بن پا رہا۔ ایک بار پھر جوتوں سے متعلق محاورہ سن کر ہکا بکا رہے گیا۔ کچھ شعور پکڑا تو سمجھ میں آیا کہ انسانی زندگی میں جوتوں کی کوئی خاص اہمیت ضرور ہے ذرا اسکا بھی کھوج لگایا جائے۔

رہی سہی کسر خالہ اماں نے پوری کر دی ۔ ایک روز صحن میں سنہری دھوپ کی روشنی میں کینو کھاتے ہوئے اماں کو اپنی ببتا سنائی کہ اپنے قابل موٹر مکینک بیٹے کے رشتے کے لئے جوتیاں چٹخاتی پھر رہی ہوں کوئی مناسب لڑکی نہیں مل رہی۔ خالہ کی طرف سے جوتوں سے متعلق داغہ گیا یہ محاوہ بھی ذہن میں ایک چنگاری بن کر فٹ ہو گیا۔ اماں کا جواب سن کر کچھ دل کو اطمنان ہوا کہ چلو کوئی تو لائن ہاتھ میں آئی۔ کہنے لگیں رہنے دو بہن،،،،بیٹے کو کوئی اور کام کاج سیکھاؤ یا ڈھنگ کا کاروبار کراؤ ورنہ بیوی کے ہاتھوں جوتے کھاتا رہے گا۔ خیر کچھ شعور کی بیداری پر سمجھ آ گیا کہ جوتے کھانا ہوتا کیا ہے سو فیصلہ کیا کہ مالی طورپر مستحکم ہوئے بغیر شادی کا ارادہ نہیں کرنا ورنہ جوتے کھانا نصیب میں لکھا جائے گا۔

بس کیا تھا ایک دن محلے کا بچھو بھائی چوری کے الزام میں ناجائز ہی پولیس کے ہتے چڑھ گیا، پتا چلا کہ بے گناہ ہونے کے باجود پولیس نے اس پر خوب تشدد کیاکہ اسکا بیٹھنا اور لیٹنا تک محال تھا۔

خیرت دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ پولیس نے اس پر اقرار جرم کے لئے نو نمبر جوتے ( چھتر) کی اتنی بارش کی کہ بیان سے باہر ہے۔ اس کی یہ بات سن کر تو اوسان خطا ہو گئے، سوچا کہ جوتے کی اہمیت پر ریسرچ کا ارادہ ترک کر دیا جائے، لیکن سکون نصیب نہیں ہوا اور خیالوں کی دنیا میں غرق ہو کر سوچتا رہا کہ اگر تھانے میں مظلوموں اور مجرموں پر جوتے برسائے جاتے ہیں تو ضرور جوتے سے متعلق محاورں کی کوئی نہ کوئی اہمیت ہے۔
خیر وقت گزرتا گیا۔ زندگی کے اوتار چڑھاؤ سہتے ہوئے اب پریکٹیکل لائف میں داخل ہو گیا لیکن اس کے باوجود جوتے کے کاٹنے اور اس سے متعلق محاورں کی افادیت جاننے کا تجسس کم تو ہو گیا لیکن برقرار رہا۔

ایک روز سوچا کہ کہیں یہ میرا نفسیاتی مسلہ ہی نہ بن جائے سو اس پر سوچنا چھوڑ دیا جائے۔ کبھی خیال آتا کہ اگر جوتوں سے متعلق محاوروں کی کسوٹی سے گزرنا پڑا تو کیا ہو گا۔ جیسا کہ اماں نے اپنے بھانجے سے متعلق کہا کہ یہ بیوی سے جوتے کھائے گا۔

عملی زندگی میں قدم رکھا تو خیال آیا کہ جوتوں سے متعلق خطرناک محاورں سے جان چھڑانے کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔

2018کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کا طوطی بول رہا تھا، خود کویوتھ کا نمائندہ گردانتے ہوئے سوچا کہ نئی جماعت ہے اور ملکی حالات کی بہتری کا ارادہ بھی رکھتی ہے سو اس کے ساتھ خود کو نتھی کر لیا جائے۔ خوشگوار موڈ دیکھ کر ابا سے اجازت چاہی کہ مینار پاکستان عمران خان کا جلسہ ہو رہا ہے، شرکت کر لوں۔۔بس پھر کیا تھا انہوں نے جلال میں پھر دکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا۔ انتہائی غضب ناک انداز میں گویا ہوئے کہ خبردار جو سیاسی کارکن بننے کی کوشش کی ورنہ چوک میں کھڑا کر کے جوتے ماروں گا۔ ایک اور محاورہ سن کر اب تو طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو گیا کہ کیا مصیبت ہے۔

خیر الیکشن ہوئے تحریک انصاف کی حکومت بننے کے نمایاں امکانات روشن ہو گئے تو ایک بار پھر ابا حضور کی خدمت میں ان کا نارمل موڈ دیکھ کر حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے پدر جاں ، حکومت بدل گئی اب ملکی حالات بھی تبدیل ہو جائیں گے۔ کرپٹ عناصر کا خاتمہ ہو گا، حقدار کو حق ملے گا۔ ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہو گا۔ ویسے تو ابا نظریاتی طور پر مسلم لیگی تھے، نواز لیگی نہیں تھے۔ کہنے لگے بیٹا اب دیکھنا،،،،جوتوں میں دال بٹے گی۔ ابا کی بات سن کر ایسا جنوں طاری ہوا کہ جی چاہ کہ آج خود کو اپنے ہی ہاتھوں جوتے ماروں۔ کیونکہ اب میں جوتوں سے متعلق محاوروں پر تحقیق چھوڑ چکا تھا کیونکہ مجھے ان کا مفہوم سمجھ میں آ گیا تھا۔

چونکہ اب شعوری طور پر میں بیدار ہو چکا ہوں۔ جوتوں کے علاوہ اورکئی محاوروں کا مفہوم جان چکا ہوں۔ لہذا اب وزیراعظم عمران خان کو مشورہ تو دے سکتا ہوں نا! کہ محترم آپ نے جو قوم سے وعدے کئے ان کی طرف توجہ دیں۔ دو سال ہونے کو ہیں، کرپشن کے نام پر سیاستدانوں، نیوروکریٹس، سرمایہ داروں کو پکڑا جا رہا ہے لیکن برآمد کچھ نہیں ہو رہا۔ جناب والا چاہے سب کو چوک میں جوتے ماریں، تھانوں میں لے جا کر چھترول کریں، صرف احتساب عدالت کے چکر لگوا کر کرپٹ مافیا کے جوتے نہ گھیسائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جوتوں میں دال بٹنا شروع ہو جائے۔ لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے اور آپ سرکار کو بھی اقتدار کے جوتے کاٹنا شروع کر دیں۔

کرپشن میں نہائے کچھ شریف تو جوتیاں چٹخاتے لندن نکل لئے اور کچھ ضمانتوں پر رنگین اور پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ محترم قابل احترام پیر پگاڑا اور نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم اس قوم کے خواب میں آ کر سرگوشیاں شروع کر دیں کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے ۔۔بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔

قمر جبار ایک سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں اور وہ گذشتہ تین دہائیوں سے انگلش، اردو اخبارات میں لکھتے ہیں۔ ان کا دس سال کا الیکٹرونک میڈہا کا بھی تجربہ ہے۔ ان کی شگفتہ تحریریں اور بےباک تبصرے قارئین کی توجہ کا ہمیشہ مرکز رہے ہیں۔ ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے.
qamar1200@hotmail.com

User Rating: 4.65 ( 1 votes)

About Daily Pakistan

Check Also

نامعلوم افراد کی aاداکارہ مالا کی گاڑی پر فائرنگ، بھائی جاں بحق

فیصل آباد (غیلی پاکستان آن لائن) نامعلوم افراد نے سٹیج اداکارہ اور میک اپ آرٹسٹ …

Skip to toolbar