چیف جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار کمپلیکس کا افتتاح کردیا
بینچ اور بار کا تعلق ہمیشہ قائم رہے گا،بینچ بار ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، چیف جسٹس نے وکلاءسے تعاون مانگ لیا
وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے کیسز دائر کر سکیں گے اور پھر ہمیں منہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں پڑےگی، جسٹس مشیر عالم
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار کمپلیکس کا افتتاح کردیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے وکلاءسے مقدمات جلد نمٹانے میں تعاون مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ،بینچ اور بار کا تعلق ہمیشہ قائم رہے گا،بینچ بار ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔
جمعہ کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالتی نظام کو کورونا سے درپیش چیلنجز سے متعلق مذاکرے کا بھی اہتمام کیا ۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے اور ججز کو دعوت دینے پر بار کا شکریہ ادا کرتا ہوں،وکلا کو کمپلیکس مین فائیو اسٹار ہوٹل کی سہولت میسر ہو گی،بینچ اور بار کا تعلق ہمیشہ قائم رہے گا،بینچ بار ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں،انصاف کی فراہمی میں وکلاءکا تعاون بھی چاہتے ہیں،کمپلیکس کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی سہولت فراہم کرنے کو تیار ہیں۔
جسٹس مشیر عالم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بارز اور وکلا کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں،بارز کو کبھی خود سے دور نہیں سمجھا۔ انہوںنے کہاکہ سال میں ایک دو مرتبہ ضرور بینچ اور بار کا ڈائیلاگ ہونا چاہیے،بچپن سے مجھے ٹیکنالوجی کا شوق تھا۔
جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ کرونا نے یقینا ہم سب کی زندگی بدل دی ہے،جیسے حامد خان صاحب نے منہ چھپانے کی بات کی ہمیں بھی کئی بار منہ چھپانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مقدمات کا بروقت فیصلہ نہ ہونے اور التو کے باعث ججز کو بھی بعض اوقات منہ چھپانا پڑجاتا ہے،بین الاقوامی سطح پر ہمارا جسٹس سسٹم اچھا نہیں ہے،ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق 128 ممالک میں سے پاکستان 120 نمبر پر تھا۔ انہوںنے کہاکہ ورلڈ بنک کی رپورٹ میں ایز آف بزنس میں 190 ممالک میں سے پاکستان 156ویں نمبر پر ہے۔
انہوں نے کہاکہ میں خود بار سے آیا ہوں اور مجھے بار کے مسائل کا بخوبی اندازہ ہے، میں نے واپس بار میں جانا ہے اس لیے میں نے بار کو کبھی خود سے دور نہیں کیا، اس طرح کے مکالمہ ہر ماہ نہ سہی تو تین ماہ بعد لازمی ہونا چاہیے۔
جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ آئی ٹی سے میری ہمیشہ سے ہی دلچسپی رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی ای کورٹس کے لیے کافی کام کیا ہے، اس وقت ہمیں فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے، ہم بگ ڈیٹا بنک اور نیشنل ڈیٹا بنک کی ضرورت ہے، وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے کیسز دائر کر سکیں گے اور پھر ہمیں منہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں پڑےگی۔صدر بار کونسل قلب حسن نے کہاکہ میں تمام مہمانوں کا شکر گزار ہوں جو ہمارے اس پروگرام پر ملک بھر سے آئے،ویڈیو لنک کے زریعے کیسسز کیلئے بار رومز میں کمرے مختص کئے ہیںوکلاءبار روم میں بیٹھے کراچی پشاور کوئٹہ رجسٹری میں کیسسز میں دلائل دے سکیں گے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر وکیل علی ظفر نے کہاکہ کرونا وائرس نے ہماری زندگی کو بدل دیا ہے انہوںنے کہاکہ ہمارا عدالتی نظام بھی کرونا سے نہیں بچ سکا،عدالتوں میں استطاعت سے 50 فیصد کم کام ہو رہا ہے،کرونا وائرس ہمارے لیے ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا موقع ہے،ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم زیر التوا مقدمات کو جلد نمٹا سکتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ موجودہ حالات میں ای کورٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے انہوںنے کہاکہ ہمیں لانگ ٹرم کیلئے نیو جنریشن ڈیجیٹل جوڈیشل پورٹل بنانا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم سے بات ہوئی انھوں نے کہا جوڈیشل پورٹل کیلئے حکومت تیار ہے،ملزمان کا بیان ریکارڈ کرنے سمیت سائلین کو موبائل سروس دینا ہوگی۔