“لمحہ فکریہ”
ڈاکڑ وقار چوہدری
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیزایجادات نے انسان کے طرز زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے جہاں اس نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑ دہے ہیں وہاں اخبارات پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں جس میں سب سے زیادہ کالم نگار متاثر ہوۓ ہیں. جن کی پہلے ہی خستہ حالت تھی اب تو باکل ہی ملیا میٹ ہو گئ ہے. انہیں کویُ بھی نہیں پڑھتا اب کالم نگار اپنے کالم شو شل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے ہیں جہاں ان کو اپنی حشیت کا احساس ہو جاتا ہے جب خود کار سسٹم کے تحت پتہ چل جاتا ہے کہ ان کے کالم کو تو کسی نے دیکھا تک نہیں ۔
اب انہوں نے با اثر شخصیات کو ایڈمن بنا کر واٹس اپ گروپ بنانے شروع کر دئیے ہیں تاکہ کم از کم انکے کویُ تو کالم پڑھے ۔
ایسا ہی حادثہ میرے ساتھ کل پیش آیا جب ایک دوست سابق آی جی پولیس کے توسط سے بنائے واٹس اپ گروپ میں نواے وقت کے کسی نامور کالم نگارکا کالم شئیر ہوا. کالم نگار سےمیرے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں اور ان کے کالم پرجب میں نے ھلکی پھلکی مزاح میں بات کی تو انکا ہم نوا کالم نگار سیخ پا ہو کر کہنے لگا کہ اپ کون ہوتے ہیں انکے بارے مہیں کسی قسم کی راۓ دینے والے؟ میں نے ان بزرگ کالم نگار صاحب کو بتانے کی جسارت کی جب کبھی کچھ چھپ جاتا ہے تو یہ عوام کی پراپڑٹی بن جاتا ہے اور ہر کسی کو مکمل آزادی ہوتی ہے کہ اس پر اپنی رائے دے سکتا ہے ۔اچھے کالم نگار ہمیشہ ہر قسم کی تنقید کو ہضم کرتے ہیں جبکہ ھلکے قسم کے کالم نگارآپے سے باہر ہو جاتے ہیں کہ پوری دنیا ہیں شاید عقل کل وہ ہی ہیں.
دس پندرہ سال پہلے مجھے بھی شوق ہوا چلو آج میں بھی کالم پڑھتا ہوں ۰جب میں نے ایک قومی اخبار کا پورا کالم پڑھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ اس میں سوائے بک بک کے کچھ بھی نہیں تھا اور یہ کس طرح چھپ گیا اور اسکو کون پڑھتا ہو گا. اس کے علاوہ میں مختلف اوقات میں مزید تین کالم دیگربعد قومی اخبارات میں پڑھے تو دکھ ہوا کہ ہماری صحافت کا یہ معیاررہ گیا ہے ۔ تحریر ہو تو ایسی ہو کہ دل میں اتر جائے ورنہ بیکار ۔ کسی نہ کسی کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کالم لکھنے کیلۓ محنت اور مطالعے کی ضرور ت ہوتی ہے اور تحریر مکمل طور پر غیر جانبدار ہونی چا ہیے تاکہ دوسرے لوگ اپ کے علم سے استفادہ حاصل کر سکیں-
جس کالم نگار کا ضمیر مطمعن ہوتا ہے وہ کبھی لوگوں سے بھیک نیں مانگتا کہ میرا کالم اپنے گروپ اور شو شل میڈیا میں شئیر کرو۔یہ میری چالیس سالہ انگریزی صحافت میں اردو کی پہلی تحریر ہے اگر کوئ غلطی ہو تو نشان دہی کر دیں مشکور ہونگا ۔
اردو میں لکھنے کا کویُ اردہ تو نہیں تھا- اس لیے کہ اردو اتنی اچھی نہیں تھی. میرے دوست صحافی مظفر علی سیال صاحب جنہوں نے بیس سال قبل ایف س کالج سے ایم اے انگلش کیا تھا اور میرے ساتھ بطور ڈپٹی چیف رپورٹر کام کیا ہے جب میں ایک انگلش اخبار کا ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھا۔ مظفر صاحب نے اصرار کیا کہ سر اللہ کا نام لے کر لکھیں دیکھا جاے گا-شاید نہ لکھتا مگر کل جو مجھے ایک کالم نگار سے تلخ تجربہ ہو اس نے مجبور کیا کہ اب وقت ہے میدان میں کو د پڑنے کا۔
میری تمام قلمکاروں اور صحافت کے عظیم دوستوں سے گزارش ہے ہمیشہ ذاتی مفاد کی بجائے وسیع تر قومی مفادات کو اولیت دیں -آپ اچھی اور مثبت سوچ کے ساتھ قوم اور حکومت کی راہنمائی فرمائیں۔ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اسکی توقعات پر پورا اترنا آپ کا فرض ہے. تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔
لمبی تحریر نہیں لکھنا چاہتا تاکہ بوریت کا عنصر نہ پیدا ہو جائے۔
ڈاکٹر وقارچوہدری گذشتہ کئی دہائیوں سے انگلش جرنلزم سے وابستہ ہیں. وہ سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی سے ریٹائرڈ ہیں اورآج کل عملی صحافت کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ماس کمیونیکیشن میں سینئر پروفیسر ہیں.