فوج نے نوازشریف کو چوسنی لگا کر سیاست دان بنایا، یہ کبھی جمہوری نہیں رہے،ہر آرمی چیف سے لڑائی رہی ، وزیراعظم
پاکستان میں سول اور فوجی تعلقات میں مسئلہ رہا ہے، اگر ماضی میں کسی آرمی چیف نے کوئی غلطی کی تو کیا ہمیشہ کے لیے پوری فوج کو برا بھلا کہیں، اگر جسٹس منیر نے غلط فیصلہ کیا تو عدلیہ کو ساری زندگی برا بھلا کہنا ہے،
ماضی صرف سیکھنے کےلئے ہوتا ہے، ہم سیکھا ہے فوج کا کام حکومت چلانا نہیں ،مجھ سے پوچھے بغیر آرمی چیف کارگِل پر حملہ کرتے تومیں فارغ کردیتا،
منتخب وزیراعظم ہوں کس کی جرت کہ مجھ سے استعفیٰ مانگے،پاکستان کی فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے،
نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے،
واضح طور پر کہتا ہوں کہ ان کے پیچھے 100 فیصد ہندوستان پوری مدد کر رہا ہے،
خدا کے واسطے اپنی آنکھیں کھولو ، لیبیا، عراق، شام، افغانستان، یمن اور پوری مسلم دنیا میں آگ لگی ہوئی اور اگر آج ہماری پاکستانی فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے، سارے چھوڑ اور ڈاکو اکٹھے ہوگئے ہیں ،اقتدار چھوڑنے کو ترجیح دوں گا این آر او نہیں دوں گا، عمران خان کا انٹرویو
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد نوازشریف کو بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج نے نوازشریف کو چوسنی لگا کر سیاست دان بنایا، نواز شریف کبھی جمہوری نہیں رہے،پاکستان میں سول اور فوجی تعلقات میں مسئلہ رہا ہے، اگر ماضی میں کسی آرمی چیف نے کوئی غلطی کی تو کیا ہمیشہ کے لیے پوری فوج کو برا بھلا کہیں، اگر جسٹس منیر نے غلط فیصلہ کیا تو عدلیہ کو ساری زندگی برا بھلا کہنا ہے،ماضی صرف سیکھنے کےلئے ہوتا ہے، ہم سیکھا ہے فوج کا کام حکومت چلانا نہیں ،مجھ سے پوچھے بغیر آرمی چیف کارگِل پر حملہ کرتے تومیں فارغ کردیتا، منتخب وزیراعظم ہوں کس کی جرت کہ مجھ سے استعفیٰ مانگے،پاکستان کی فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے،نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے،واضح طور پر کہتا ہوں کہ ان کے پیچھے 100 فیصد ہندوستان پوری مدد کر رہا ہے،خدا کے واسطے اپنی آنکھیں کھولو ، لیبیا، عراق، شام، افغانستان، یمن اور پوری مسلم دنیا میں آگ لگی ہوئی اور اگر آج ہماری پاکستانی فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے، سارے چھوڑ اور ڈاکو اکٹھے ہوگئے ہیں ،اقتدار چھوڑنے کو ترجیح دوں گا این آر او نہیں دوں گا۔
ایک انٹرویومیں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں سول اور فوجی تعلقات میں مسئلہ رہا ہے، اگر ماضی میں کسی آرمی چیف نے کوئی غلطی کی تو کیا ہمیشہ کے لیے پوری فوج کو برا بھلا کہیں، اگر جسٹس منیر نے غلط فیصلہ کیا تو عدلیہ کو ساری زندگی برا بھلا کہنا ہے۔
انہوں نے کہ کہ ماضی صرف سیکھنے کے لیے ہوتا ہے، ہم سیکھا ہے کہ فوج کا کام حکومت چلانا نہیں ہے، جمہوریت اگر ملک کو نقصان دے رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی جگہ مارشل لا آجائے، اس کا مطلب جمہوریت کو ٹھیک کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ اگر عدلیہ میں غلط فیصلے ہورہے ہوں، کوئی چیف جسٹس ایسا آئے جو غلط فیصلے کرے یا ملک میں کمزور کو طاقت ور سے تحفظ نہ دے سکتے تو اس مطلب یہ نہیں ہے عدلیہ کی مذمت کریں بلکہ اس کو بہتر کریں۔
وزیراعظم نے کہاکہ ہمارے ملک میں عدلیہ بہتر ہوتی گئی ہے اور اسی طرح فوج بھی بہتر ہوئی ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ سول فوجی تعلق بہتر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی فوج ایک جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اعتماد اس لیے ہے اپنے دائرے میں کام کررہے ہیں، ایک جمہوری حکومت اپنے منشور کے مطابق کام کررہی اور فوج اس کے مطابق کام کررہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ آج پاکستان کی فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف کبھی جمہوری نہیں تھے، پہلے انہیں فوج نے پالا، جنرل جیلانی سے شروع ہوئے، جنرل ضیا الحق نے پالا، سب میرے سامنے ہے، کیسے ہاتھ پکڑ کر منہ میں چوسنی لگا کر انہیں ایک سیاست دان بنایا۔نواز شریف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک کاروباری تھے، کیسے ڈی سیز کے دفتر کے باہر پھل کے ٹوکرے رکھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جنرل جیلانی کے سریا لگایا اور وزیرخزانہ بنے اور اب ایک دم سے بڑے جمہوری بنے ۔
انہوں نے کہاکہ پہلے ان کا مسئلہ غلام اسحق سے آیا، جنرل آصف جنجوعہ، پھر جنرل پرویز مشرف کو ترقی دی تاہم مسئلہ آیا، اس کے بعد جنرل راحیل اور پھر جنرل باجوہ سے مسئلہ آیا حالانکہ خود انہوں نے منتخب کیا تھا، ہماری ایجنسیاں آئی ایس آئی اور ایم آئی ورلڈ کلاس ہیں ایجنسیاں اور چوریوں کا ان کو پتہ چلتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف سارے سول اداروں کو قابو کرتے ہیں، نواز شریف نے عدلیہ کو کنٹرول کیا، سجاد علی شاہ کو ڈنڈے اور باقی عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے پیسوں کے بریف کیس دئیے۔
انہوں نے کہا کہ فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے اور جب کنٹرول میں نہیں آتی تھی تو یہ جمہوری بن جاتے تھے اور سارا وقت فوج کو برا بھلا کہتے ہیں، بیان میں کہہ رہے تھے کہ جنرل ظہیر الاسلام نے آکر کہا کہ استعفی دو، آپ وزیراعظم تھے، اس کی جرات ہے کہ آپ یہ کہنے کی، آپ سیدھے ان سے جواب طلب کریں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم ہوں اور اگر مجھے کوئی ایسا کہے تو فوری طور پر میں اس کا استعفے کا مطالبہ کروں گا، میں ملک کا وزیراعظم ہوں اور کس کی جرات ہے کہ مجھے آکر یہ کہے۔انہوں نے کہا کہ اگر میرے پوچھے بغیر کوئی آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتا تو میں اس کو سامنے بلاتا اور میں اس کو فارغ کرتا، اتنا بزدل نہیں کہ وہ سری لنکا گیا تو فارغ کروں۔عمران خان نے کہا کہ نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے، یہی الطاف حسین نے کیا، میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ان کے پیچھے 100 فیصد ہندوستان پوری مدد کر رہا ہے، پاکستان کی فوج کمزور کرنے پر دلچسپی ہمارے دشمنوں کی ہے۔انہوںنے کہاکہ امریکا میں ہندوستانی لابی میں کون بیٹھا ہوا ہے جو بڑا جمہوری بن کر پاکستان کی فکر میں، حسین حقانی باہر بیٹھ کر پوری مہم چلاتا ہے اور یہاں نادان لبرلز بنے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں ہم فوج کے خلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ان سے کہتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنی آنکھیں کھولو اور لیبیا، عراق، شام، افغانستان، یمن اور پوری مسلم دنیا میں آگ لگی ہوئی اور اگر آج ہماری پاکستانی فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان کے تھنک ٹینک باقاعدہ طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کو توڑنا ہے اور ہم اس فوج کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی تاریخ کا واحد آدمی ہو ہوں جو 5 حلقوں سے جیت کر آیا ہوں، نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح فوج کی نرسری میں نہیں پلا، ایوب خان کی کابینہ میں سارے جنرل تھے اور صرف ایک سویلین وزیر تھا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پارلیمانی رہنماوں سے ملاقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھ کر ملاقات کی تھی۔انہوںنے کہاکہ گلگت بلتستان کے اندر بھارت مکمل طور پر متحرک ہے کیونکہ یہ سی پیک کی روٹ ہے اور اوپر سے انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور مسئلہ ہے۔عمران خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق ہوں اور ایک کش مکش میں ہیں، ہندوستان اس کا استعمال کررہا تھا اس لیے جنرل باجوہ سیکیورٹی مسئلے آگاہ کیا جو ہمارا دشمن آگے جا کر مسئلہ اٹھا رہا ہے۔وزیر اعظم نے کہاکہ ہندوستان نے ملک میں شیعہ سنی انتشار کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ہماری ایجنسیوں نے ناکام بنایا اور اسلام آباد میں لوگوں کو پکڑا، بی جے پی کی موجودہ حکومت جیسی ہندوستان میں اس قدر پاکستان مخالف کوئی حکومت نہیں آئی۔
انہوں نے کہاکہ سب جانتے ہیں بھارت دہشتگردی کو پروان چڑھاتا ہے، بھارت گلگت بلتستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہاہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنے حقوق چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ نواز شریف جھوٹ بول کر بیرون ملک گئے، ہم تو سمجھ رہے تھے کہ وہ جہاز کی سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ سکیں گے۔عمران خان نے کہا کہ انہیں معلوم ہے میں این آر او نہیں دوں گا اس لیے مائنس ون کہتے رہتے ہیں، اپوزیشن عدلیہ، نیب اور فوج پر پریشر ڈال رہی ہے، اگر اس وقت یہ پریشر ہم نے جھیل لیا تو پاکستان وہ ملک بن جائےگا جو اسے بننا چاہیے تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ اپنی چوریاں بچانے کےلئے ڈاکواکٹھے ہوگئے ہیں،چوروں کے دباﺅ میں آکر ڈیل کرنے سے ملک تباہ ہوتے ہیں، یہ ملک کومقروض چھوڑکرگئے اورجواب ہم سے مانگ رہے ہیں، ملک میں دولت بڑھانے کی انہوں نے چیزیں نہیں چھوڑیں۔انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن استعفے دے گی تو ہم الیکشن کرادیں گے۔