کابل میں خواتین کے احتجاج کے دوران طالبان کا صحافیوں پر تشدد
کابل(ڈیلی پاکستان آن لائن) طالبان نے جمعرات کو کابل میں خواتین کے حقوق کے احتجاج کی میڈیا کوریج کو روکنے کے لیے کئی صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔تقریباً بیس خواتین نے احتجاج کرتے ہوئے وزارت تعلیم سے وزارت خزانہ تک پیدل مارچ کیا۔صبح دس بجے مقامی وقت کے مطابق رنگ برنگے سکارف پہنے یہ نعرے لگا رہی تھیں، ”تعلیم پر سیاست مت کرو”۔ خواتین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: “ہمارے پاس تعلیم اور کام کرنے کے حقوق نہیں ہیں” ، اور ”بے روزگاری ، غربت ، بھوک ”۔ طالبان اٹھارٹی کی طرف سے خواتین کو ایک گھنٹے سے زائد وقت کے لیے آزادنہ احتجاج کی اجازت دی گئی تھی تاہم اس کے باوجود خواتین کے احتجاج کی میڈیا کوریج کو روکنے کے لیے طالبان جنگجووں کی طرف سے صحافیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک غیر ملکی صحافی کو طالبان جنگجو نے بندوق کے بٹ سے نشانہ بنایا اور گالیاں دیں جبکہ دوسرے نے فوٹوگرافر کی پیٹھ پر لات ماری۔ علاوہ ازیں، دو مزید صحافیوں کو مارا پیٹا گیا اور جب صحافی منتشر ہونے لگے تو طالبان نے ان کا پیچھا کیا۔ احتجاجی منتظمین میں سے ایک زہرہ محمدی نے بتایا کہ خواتین خطرات کے باوجود احتجاج کر رہی ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ طالبان کسی چیز کا بھی احترام نہیں کرتے۔صحافی یا خواتین ، مقامی ہوں یا غیرملکی سب کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ کچھ طالبان جنگجووں نے مکمل جنگی لباس پہنا ہوا تھا جس میں باڈی آرمر ، ہیلمٹ اور گھٹنے کے پیڈ شامل تھے جبکہ باقی طالبان روایتی افغان لباس میں تھے۔ ان کے ہتھیاروں میں امریکی ساختہ M16 اسالٹ رائفلیں اور AK-47 شامل تھیں۔